या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

Saturday, June 27, 2020

بیوی ایک انمول تحفہ





بیوی کو شادی کے چند سال بعد خیال آیا
کہ اگر وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کے چلی جائے
تو شوہر کیسا محسوس کرے گا
یہ خیال اس نے کاغذ پر لکھا
"اب میں تمہارے ساتھ اور نہیں رہ سکتی
میں اب بور ہو گئی ہوں تمہارے ساتھ
میں گھر چھوڑ کے جا رہی ہوں ہمیشہ کے لئے"
اس کاغذ کو اس نے میز پر رکھا
اور جب شوہر کے آنے کا ٹائم ہوا تو
اس کے رد عمل دیکھنے کے لئے بستر کے نیچے چھپ گئی
شوہر آیا اور اس نے میز پر رکھا کاغذ پڑھا
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اس کاغذ پر کچھ لکھا
پھر وہ خوشی کے مارے جھومنے لگا
گیت گانے لگا، رقص کرنے لگا اور کپڑے بدلنے لگا
پھر اس نے اپنے فون سے کسی کو فون لگایا اور کہا
"آج میں آزاد ہو گیا
شاید میری بیوقوف بیوی کو سمجھ آ گیا
کہ وہ میرے لائق ہی نہیں تھی
لہذا آج وہ گھر سے ہمیشہ کے لئے چلی گئی
اس لئے اب میں آزاد ہوں
اور تم سے ملنے کے لئے میں آ رہا ہوں
کپڑے بدل کر تم بھی تیار ہو کے
میرے گھر کے سامنے والے پارک میں ابھی آ جاؤ"
شوہر باہر نکل گیا
آنسو بھری آنکھوں سے بیوی بستر کے نیچے سے نکلی
اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے کاغذ پر لکھی لائن پڑھی
جس پر لکھا تھا
"بیڈ کے نیچے سے پاؤں دکھائی دے رہے ہیں باولی
پارک کے قریب والی دکان سے بریڈ لے کے آ رہا ہوں
تب تک چائے بنا لینا
میری زندگی میں خوشیاں تیرے آنے سے ہے
آدھی تجھے ستانے سے ہے❤❤
 آدھی تجھے منانے سے ہے❤❤😁😁😁

Sunday, June 21, 2020

شہد کی مکھی- ایک اُستاد



ایک طالبِ علم نے اپنے استاذ صاحب سے عرض کی :
استاذ محترم، آپ کے پیریڈ میں ہم بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں، آپ کی باتوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور اس لیے آپ کے پیریڈ کا انتظار بھی رہتا ہے۔
لیکن
جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو آپ کے پیریڈ میں حاصل ہوتا ہے۔
استاذ صاحب نے فرمایا: شہد کی مکھی شہد کیسے بناتی ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا : پھولوں کے رس سے۔۔۔
استاذ صاحب نے پوچھا : اگر تم پھولوں کو یونہی کھا لو تو ان کا ذائقہ کیسا ہو گا؟
طالب علم نے جواب دیا : کڑوا ہوگا۔۔۔
استاذ صاحب نے فرمایا : اے میرے بیٹے۔۔۔ درس وتدریس کا شعبہ بھی شہد کے مکھی کے کام کی طرح ہے۔ استاذ شہد کی مکھی کی طرح لاکھوں پھولوں (کتب، تجربات، مشاہدات) کا دورہ کرتا ہے اور پھر اپنے طلبہ کے سامنے ان پھولوں کے رس کا نچوڑ میٹھے شہد (خلاصے) کی صورت میں لا کر رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کی حفاظت فرمائے جو انبیاء کے اس کام سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمارے ہر استاذ اور استانی کے لیے سلامتی ہو۔ 

اس حکایت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کسی استاذ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرے درس میں شہد کے جیسی چاشنی نہیں، یعنی طلبہ دلچسپی نہیں لیتے تو دو وجوہات ہو سکتی ہے :
پہلی وجہ یہ کہ اس استاذ نے شہد کی مکھی کی طرح پھول پھول کا دورہ نہیں کیا۔ یعنی تیاری کے لیے صرف ایک کتاب پر تکیہ کر لیا۔
دوسرا یہ کہ شہد کی مکھی کی طرح اس استاذ نے پھولوں کا رس نکال کر شہد بنانے کے بجائے طلبہ کے سامنے کڑوے پھول لا کر رکھ دیے۔ یعنی جیسا کتاب میں پڑھا تھا ویسا کا ویسا طلبہ کو سنا دیا۔
اگر اس میں طلبہ کے ذہنوں کے مطابق مثالیں شامل ہوتی، تختہ سیاہ یا دیگر تعلیمی آلات سے مدد لی جاتی، مناسب سرگرمیوں کا انتخاب کیا جاتا تو اس محنت کا نتیجہ میٹھے شہد کی صورت میں نکلتا۔
استاذ کا کام شہد کی مکھی کے کام کی طرح سخت اور تھکا دیتے والا ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ بھی شہد جیسا لذیذ وشیریں ہے۔

Copied

اُردو الفاظ اور اسکے معنی



اُردو الفاظ اور اسکے معنی تصویروں کی زبانی




























قیمتی باتیں


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ہم سب کے *مربی و محسن  ہمارے شیخ حضرت مفتی سید احمد اللہ صاحب غوری نقشبندی مجددی دامت برکاتہم* کی طرف سے ہم سالکین کے لئے یہ قیمتی باتیں ارسال فرمائی گئیں ہیں.

اخلاقیات_____!

١. کسی شخص کو مسلسل دو بار سے زیادہ کال مت کریں___، اگر وہ آپ کی کال نہیں اٹھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی اور ضروری کام میں مصروف ہیں یا انہیں کوئ ایسا عذر ہے کہ وہ چاہ کر بھی فون نہیں اٹھا سکتے

٢. کسی سے لی گئی ادھار رقم انکے یاد دلانے سے پہلے ادا کردیں ایک روپیہ ہو یا 1 کروڑ یہ آپ کے کردار کی پختگی دکھاتا ہے

٣. کسی نے آپ کو دعوت دی تو اس وقت مہنگی ڈش کی فرمائش نہ کریں اگر ممکن ہو تو ان ہی سے کہیں کہ آپ جو کھلانا چاہیں وہ کھلادیں

٤. مختلف سوالات کسی سے بھی مت پوچھیں جیسے 'اوہ تو آپ ابھی تک شادی شدہ نہیں ہیں یا آپ کے بچے نہیں ہیں یا آپ نے گھر کیوں نہیں خریدا_____؟
یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے_____!

٥. اگر آپ کسی دوست کے ساتھ ٹیکسی لے لیں___، اور کرایہ وہ ادا کرتا ہے تو آپ اگلی بار ادا کردیں_____!

٦. اختلاف رائے کا احترام کریں

٧. لوگوں کی بات نہ کاٹیں بلکہ انہیں اپنی بات مکمل کرنے کا موقع دیجئے_____!

 ٨. اگر آپ کسی سے مذاق کررہے ہیں___، اور وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہورہا ہے تو رک جائیں اور دوبارہ کبھی ایسا نہ کریں_____!

٩. جب کوئی آپکی مدد کرے تو آپ اسکا شکریہ ضرور ادا کریں_____!

١٠. کسی کی تعریف کرنی ہو تو لوگوں کے سامنے کریں اور تنقید تنہائی میں صرف متعلقہ شخص کے سامنے  کیجئے_____!

١١. کسی کے ذاتی معاملے میں بالکل بھی رائے زنی نہ کریں جیسے کہ آپ اتنے موٹے کیوں ہوئے جارہے ہیں یا آپ کی صحت کچھ زیادہ ہی گرتی جارہی ہے وغیرہ۔.

١٢. جب کوئی آپ کو اپنے فون پر کچھ دلھائے تو بائیں یا دائیں سوائپ نہ کریں اتنا ہی دیکھیں جتنا وہ آپ کو دکھانا چاہتا ہے، آپکو کچھ نہیں پتہ کہ آگے کیا ہے_____!

١٣. اگر کوئی  آپ کو بتائے  کہ اسے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے___، تو یہ نہ پوچھیں کہ کس لئے___، بس آپ اچھی صحت کی دعا دیں___، اگر وہ اس کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ بھی کیجئے_____!

١٤. جس طرح آپ ایک بڑے افسر کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اسی طرح اپنے آفس بوائے اور چوکیدار کے ساتھ پیش آئیں___، اپنے سے کم تر حثیت کے لوگوں سے آپکا برتاؤ آپکے کردار کا آئینہ دار ہوا کرتا ہے_____!

١٥. اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ براہ راست بات کر رہا ہے___، تو آپ مسلسل اپنے موبائل فون کی طرف نہ دیکھیں_____!

١٦.جب تک آپ سے پوچھا نہ جائے مشورہ نہ دیں_____!

١٧. کسی سے ان کی عمر اور تنخواہ نہ پوچھیں جب تک کہ وہ خود اس بارے میں بات نہ کرنا چاہیں.


(اللہ پاک ہمارے حضرت شیخ دامت برکاتہم کو خوب جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم تمام سالکین کو ان سب باتوں پر عمل کرنے کی تو فیق عطاء فرمائے. آمین)

Friday, June 19, 2020

حج


ایک بہت هی گنہگار شخص حج ادا کرنے گیا وهاں کعبہ کا غلاف پکڑ کر بولا الٰہی اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور کلمہ حج میں دو حرف ہیں، “ح” سے تیرا حکم اور “ج” سے میرے جرم مراد ہیں۔ تو اپنے حکم سے میرے جرم معاف فرما دے ۔ آواز آئی ! اے میرے بندے تو نے کتنی عمدہ مناجات کی پھر کہو ! وہ دوبارہ نئے انداز سے یوں بولا : اے میرے بخشن ہار! اے غفار! تیری مغفرت کا دریا گنہگاروں کی مغفرت و بخشش کیلئے پرجوش ہے اور تیری رحمت کا خزانہ ہر ایک کیلئے کھلا ہے۔ الٰہی ! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور حج دو حرف پر مشتمل ہے ح” اور “ج۔ ح” سے میری حاجت اور ج” سے تیرا جُود و کرم ہے۔ تو اپنے جُود و کرم سے اس مسکین کی حاجت پوری فرما دے.آواز آئی اے میرے بندے تو نے کیا خوب حمد کی، پھر کہو۔ وہ پھر عرض کرنے لگا اے خالق کائنات ! تیری ذات ہر عیب و نقص اور کمزوری سے پاک ہے تو نے اپنی عافیت کا پردہ مسلمانوں پر ڈال رکھا ہے۔ میرے رب اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں حج کے دو حرف ہیں ح” اور “ج ح” سے اگر میری حلاوت ایمانی اور ج” سے تیرا جلال مراد ہے تو تو اپنے جلال کی برکت سے اس ناتواں ضعیف بندے کے ایمان کی حلاوت کو شیطان سے محفوظ رکھناآواز آئی “اے میرے مخلص ترین عاشق و صادق بندے ! تو نے میرے حکم میرے جودو کرم اور میرے جلال کے توسل سے جو کچھ طلب کیا ہے تجھے عطا فرمایا ہمارا تو کام ہی مانگنے والے کا دامن بھر دینا ہے ، مگر بات تو یہ ہے کوئی مانگے تو سہی، کسی کو مانگنے کا سلیقہ تو آتا ہو۔ ﺍﮮ الله هم جیسے گنہگاروں کو بهی مانگے کا سلیقه اور توفیق عطا فرما.. آمین ثم آمین

نفاق


عبد المعید مدنی صاحب (علیگڑھ) کی " نفاق" پر ایک تحریر.
انسان کے قلب و ذہن پر جب نفاق کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے تووہ امتیاز حق وباطل کی صلاحیت یکسر کھودیتا ہے ۔عالم فاضل ہو کربھی اس‌لایق نہیں رہتا کہ وہ عملی وفکری کسی بھی سطح پرحق وباطل کے درمیان امتیاز قایم رکھ سکے۔ 

نفاق دلی روگ ہے۔متعدد ‌الجہات روگ ہے۔ پہلے  وہ انسان کو خبیث النفس بناتا ہے ۔جتنا گاڑھا نفاق ‌ہوتا ہے 
اتنا ہی انسان خبیث النفس بنتا ہے ۔بدباطن خبیث النفس انسان کے اندرلالچ ‌کمینگی‌،مکر‌،فساد خودغرضی نقطہ عروج پر ھوتی ہے ۔اسے ہر خیر شر نظر آتا ہے ۔وہ مطلب برآری میں اتنا آکے نکل جاتا ہے کہ انسان اور
سماج کا غیرشعوری یا شعوری دشمن بن جاتا ہے ۔خبیث
النفس انسان کی سرگرمیاں مفاد ذات اور مضرت غیر پر منحصر ہوتی ہیں ۔ اس کی مفاد پرستانہ منافقانہ سرگرمیاں اسے جھوٹا بے ایمان فریبی سازشی بیوفا،دل ونگآہ کا اندھا بنا‌دیتی ہیں اس کی منافقت اس کے ہر تصرف اور قول وفعل میں جھلکتی ہے 

منافقت نہ قرآن کی عظمت کو سمجھتی ہے،نہ نبی کی نبوت کو سمجھتی ہے۔وہ صدیق کی صداقت کا بھی ادراک نہیں کرسکتی۔اسے ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق کی عصمت کا بھی پاس لحاظ نہیں رہتا۔اسے فاروق کے رعب و جلال اور ‌ذوالنورین کی حیا بھی متاثر نہیں کرتی۔نفاق بوڑھے نبی باپ کی گریہ وزاری پر‌رحم نہیں کھاتا،نہ معصوم نبی بھایی کیخلاف قاتلانہ سازش سے باز رکھتا ہے ۔

نفاق کو انسان کی‌بدنیتی اورخباثت‌نفس برابر‌ کھاد پانی دیتی رہتی ہے اور اس کا یہ زہریلا جہنمی 
درخت  تناور ہوتا رھتا ہے ۔اور منافق کو‌ اس سے 
کذب افتراء تہمت طرازی میں انرجی ملتی رہتی ہے۔

منافق کا ٹار گٹ ہمیشہ ‌سچایی‌اور سچے،شرافت اور
شرفاء ہوتے ہیں۔کیوں‌کہ یہان کے دشمن ہوتے ہیں ۔اوران کو ٹھگنا آسان ہوتاہے اور ان کو ستا کر اس کی اذیت پسندی کی طبیعت‌کو‌ مزا ملتا ہے ۔

نفاق دل کی وحشت اور‌حسد کانام ہے۔جس دل میں نفاق بیٹھ جاتا ہے وہ شر ،تفسیر شر،اور تخلیق شر کے پیچھے ایسے بھاگتا ہے جیسے بلی چھیچھڑے،اور کتا
ہڈی کی طرف بھاگتا ہے۔منافق‌شرو فساد میں مجتھد بن جاتا ہے ۔وہ اخلاص سے شر برآمد کرتا ہے۔وہ اچھی
سیرت وکردار کو گندگی کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔اور ساری
مکاریوں ریاکاریوں بےوفاییوں‌خیانتوں اور اکاذیب کو 
فضائل وکمالات بنا دیتا ہے ۔اس کی زندگی کا مشن بن جاتا ہے اچھے برے ،خیروشر ،حق وباطل ،یقین ووہم 
اور تاریکی واجالے کے درمیان خلط ملط کرنا۔ 

منافق ایک بےرحم شکاری ہوتاہے۔اسے شکار کے ان گنت طریقے آتے ہیں۔ اسے چرب زبانی آتی ہے، وہ جھوٹ ایسی فنکاری سے بولتاہے کہ سچایی  عش عش کرے۔وہ عذر خواہی اورمعذرت ایسے کرےگا کہ اس کی  خطاکاریاں فضایل ومحامد بن جاییں ۔اس کی باریک 
چالیں ایسی ہوتی ہیں کہ شریف انسان اس پر فدا ہو‌
جاے ۔شکار جب اسکی دسترس میں ہو تو وہ قصایی بن جاتاہے ہے ۔اوردسترس سے باہر ہو تو پجاری بن جاتا ہے منافق کو رونا بھی آتا ہے بھڑکانا وبھرمانا بھی آتا ہے۔منافق کا سب سے بڑا ہتھیار ہے کردار کشی ،تہمت 
طرازی،جعلسازی‌اور کذب سازی۔برادارن یوسف سے لےکراب تک منافق کی فساد انگیزی کا سب سے بڑا ہتھیار یہی ہے 

منافق‌ تنگ دل کینہ‌پرور ذلیل وخسیس‌بے  کرداراور ڈھیٹ بن جاتا ہے۔ اس کی ذات شرو فساد کی آماجگاہ
بن جاتی ہے ۔وہ رسوا ہوکر بھی خوش رھتا ہے ۔کیوں کہ دوسروں کو رسوا کرنااس کی عین حیات ہے۔منافق بہت ہانکو اور پھینکو بھی ہوتاہے۔یہ‌اسکے لب و لہجے
کی خاص پہچان ہوتی ہے۔منافق مسکین رسوائیوں میں جیتا ہے لیکن اکڑ ومظاھر اکڑ میں اس کا کویی ثانی نہیں ہوتا۔منافق اپنا الو سیدھا کرنے کے  لیےموافق مخالف،اچھے برے سب سے پینگیں بڑھاتا ہے
دونوں پارٹیوں سے ساز باز رکھتا ہے چاپلوسی کرتا ہے 
منافق لوگوں‌کو ‌لڑانے اور‌آگ‌لگانے میں ماہر ہوتا ہے ۔
اس کا کویی دین مذھب اصول عقیدہ اور مسلک نہیں 
ہوتا جو ہوتاہے دکھاوا ہوتا ہے۔اس کے لیے سب کچھ 
اس کی اکڑ ،اس کی ذاتی مصلحتتیں اورذاتی فوائد
ہوتے ہیں ۔وہ اپنے فائدے کے لئے دین اخلاق رشتے
محبتیں اچھے تعلقات سب کو چند سکنڈ میں قربان کر سکتا ہے ۔

نفاق ذاتی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی ہوتا ہے ۔نفاق رویہ اور نظریہ بھی بن جاتا ہے ۔آج صلحاء واتقیا ء کی
مختصر جماعت کو چھوڑ کرہر انسان چھوٹا یا بڑ ا
منافق‌ہے۔نفاق فی العقیدہ بھی ہے اورنفاق فی الاخلاق اور عمل بھی ۔اور اتنا مستحکم ہے کہ سالار کارواں بنا ہوا ہے ۔اور سارے نفاق آج سماجی رویہ‌بن چکے ہیں ۔

منافق کافر بنے یا مسلمان ، جب وہ نقاق میں پختہ ہو‌جاتا ہےتو‌دونوں کی سرگرمیاں یکساں ہںو جاتی ہیں
نفاق کا کویی مذہب و مسلک ‌نہیں ہوتا۔اس کی بس ایک پہچان ہوتی ہے۔ذات‌ومفاد ذات۔

آج نفاق زندگی کی ہر شے میں حکمراں ہے ۔ مذہب سیاست تجارت حکومت تعلیم تربیت اخلاق عادات 
عبادات رویے سوچ معاشرت۔۔۔۔۔۔ اور ہر شے میں دورخا پن ۔ظاہر کچھ باطن کچھ ۔پردہ داریاں مکاریاں دوغلہ پن۔،مکر فریب ‌دکھاوا ۔حقیقت مستور جھوٹ بہ‌شکل
حقیفت۔

مساجد مدارس،رکوع سجود  ا لتجاییں دعائیں،تقریریں تحریریں،فقر‌ وغنا،جبے  قبے  عمامے  ٹوپیاں  ڈارھی اورتسابیح بھی نفاق کی یلغار سے محفوظ نہیں ۔
 

آج نفاق غلیظ سے‌سارا عالم تباہ‌ھے۔ نفرتیں دوریاں 
شکوہ سنجیاں لڑاییاں‌،تباہ کاریاں سب نفاق کا نتیجہ 
ہیں سب سے بدبودار نفاق مولوی کا ہوتا ہے اور ان کا جو دین سے لگاو‌رکھنے کے دعوی دارر ہںتے ہیں۔

Thursday, June 18, 2020

Nps ऐवजी जुनी पेन्शन बाबत वास्तव...*


*काय आहे सत्य.!!*

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

*सन २००४ ते २००९ मधील कर्मचाऱ्यांना Nps ऐवजी जुनी पेन्शन बाबत आज viral होत असलेल्या पोस्टबाबत हे आहे वास्तव...*

सगळीकडे असा मेसेज पसरविला जातोय की केंद्रासह महाराष्ट्रातही सन २००४ ते २००९ मधील कर्मचाऱ्यांना सरसकट जुनी पेन्शन योजना लागू होणार, *पण हे सत्य नाही.*

      केंद्र,राज्य अथवा स्वायत्त संस्थांमध्ये 1 जानेवारी 2004 ते 28 ऑक्टोबर 2009 दरम्यान NPS मध्ये नियुक्त झालेले जे कर्मचारी या अगोदर ही शासकीय सेवेत होते. परंतु त्यांची पूर्वीची शासकीय सेवा नवीन सेवेत मध्ये धरली गेली नाही. अशा कर्मचाऱ्यांना जुनी पेन्शनचा लाभ देण्यात यावा. (नियमित सेवा बदल झालेले कर्मचारी)

उदाहरणार्थ  : 
एखादा कर्मचारी २००३ मध्ये नोकरीला लागला. (राज्यात/केंद्रात) तेव्हा तो जुनी पेन्शन योजनेचा लाभार्थी होता. पण तो सन २००६ साली परीक्षा देऊन कलेक्टर झाला अथवा अन्य कुठल्याही केंद्रीय सेवेत आला.आता तो २००४ नंतर केंद्रीय सेवेत आला म्हणून त्याला नवीन पेन्शन योजना लागू करण्यात आली ,पूर्वीची जुनी पेन्शन योजना नाकारण्यात आली. पूर्वीची सेवा मोजली/गणन केली नाही.(इथे हे लक्षात घ्या की, केंद्रीय कर्मचाऱ्यांना जानेवारी २००४ साली नवीन पेन्शन योजना लागू करण्यात आली तर महाराष्ट्रात नोव्हेंबर २००५ नंतर)
  आता केंद्र सरकारच्या एका विभागाचे जे पत्र निघाले आहे त्यानुसार वर उदाहरण दिलेल्या कर्मचाऱ्यांची पूर्वीची सेवा मोजली/गणली जाऊन त्यांना जुनी पेन्शन योजना स्विकारण्याचा पर्याय दिला आहे. २००३ साली जुनी पेन्शन योजना लागू असणारा कर्मचारी २००६ साली केंद्र सरकारच्या सेवेत गेल्याने नवीन पेन्शन योजनेत आला होता केवळ सेवा खंडीत झाल्याने, तो आता पुन्हा जुनी पेन्शन योजनेसाठी पात्र ठरला आहे.
    
आपल्या शंका: 
🟣२००४ ते २००९ दरम्यान लागलेल्या सर्वांना जुनी पेन्शन लागू झाली का ?
उत्तर.. नाही

🟣महाराष्ट्रातील कर्मचाऱ्यांना याचा लाभ मिळेल काय?
उत्तर.. जर तो वर सांगितल्याप्रमाणे केंद्रीय सेवेत गेला तरच लाभ मिळेल, पण पूर्वी जुनी पेन्शन योजनचा लाभार्थी असायला हवा.

*केंद्रीय कर्मचार्‍यांना लागु असलेल्या NPS योजनेत बदल करण्याचा सर्वस्वी अधिकार हा केंद्र सरकारचा तर राज्य सरकारी कर्मचाऱ्यांच्या NPS योजनेत बदल करण्याचा सर्वस्वी अधिकार हा राज्याचा आहे. यापूर्वी केंद्राने खूप वेळा बदल केला आहे पण राज्याने असा बदल कधीच केला नाही*

*फिरत असलेली पोस्ट आणि राज्य सरकारी कर्मचारी यांचा काडीचा सबंध नाही.


नवीन पेंशन योजनेत NPS होत गेलेले महत्वाचे अनेक बदल..


केंद्राच्या नवीन पेंशन योजनेत NPS होत गेलेले महत्वाचे अनेक बदल..

1. 1जानेवारी2004 पूर्वी निवड होऊन ट्रेनिंग सुरु असलेल्या मात्र पोस्टिंग 1जानेवारी2004 नंतर झालेल्यां उमेदवार/कर्मचाऱ्यांना NPS ऐवजी जुनी पेन्शन लागु.. 11/10/2006

2.मृत झालेल्यां व विकलांगता आलेल्या NPSकर्मचाऱ्यांना जुनी पेंशन- 23/5/2009

3.सर्व NPS कर्मचाऱ्यांना सेवानिवृत्ती उपदान ग्रैज्युटी- 26-8-2016


4.1जानेवारी2004 पूर्वी निवड प्रक्रिया पूर्ण झालेल्यां परंतु नियुक्ति आदेश उशिरा मिळालेल्या , NPS कर्मचाऱ्यांना जुनी पेंशन लागु.. 17/2/2020

5.पूर्वीची जुनी पेन्शन लाभ असलेल्या पदाची नोकरी सोडून/राजीनामा देऊन
1जानेवारी2004 ते 28/10/2009 पर्यंत नवीन पेंशन NPS मधे  नियुक्त झालेल्यां कर्मचाऱ्यांना जुनी पेंशन लागु... 11/6/2020

موقع


کرکٹ کے میدان میں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھلاڑی غلطی کے سبب اپنی وکیٹ گنوا بیٹھتا ہے مگر یکایک امپائر گیند کو "نو بال" قرار دے کر وکیٹ کو مسترد کردیتا ہے اور اس طرح بلّےباز کو اپنی غلطی سدھارنے کا ایک موقع مل جاتا ہے لیکن زندگی کے میدان میں جب کوئی حتمی قدم اٹھا لے تو اس قدم کو "نو بال" قرار دے کر کوئی بھی انسان "جیون دان" فراہم نہیں کرسکتا۔
نوٹ: - "یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ پکڑے گی تو وہ کہے گا، اے میرے رب مجھے لوٹا دیجیے، شاید کہ اب اُس دنیا میں جسے میں چھوڑا آیا ہوں نیک کام کروں، ہرگز نہیں!" {المؤمنون ۹۹، ۱۰۰}

شرافت کا معیار


"میری شرٹ استری نہیں کی تم نے؟ "
"وقت ہی نہیں ملا. لائیں، اب کر دیتی ہوں"
"وقت کیوں نہیں ملتا؟ تم لوگوں کا گھر پر سارا دن کام ہی کیا ہوتا ہے بھلا؟ ٹی وی دیکھنا، فیس بک پر لگے رہو، فون پر سہیلیوں کے ساتھ گپیں لگاؤ، اور بس!"
"تو آپ کونسا ہل چلا کر آتے ہیں؟ صبح جا کر آفس میں بیٹھے رہو، شام کو آ کر گھر۔ کام تو سارا ہم کرتے ہیں. گھر سنبھالو، بچے سنبھالو، دن کا پتہ چلتا ہے نہ رات کا. "
۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری شرٹ استری نہیں کی تم نے؟ "
"وقت ہی نہیں ملا. لائیں، اب کر دیتی ہوں"
"آرام کر لو اب. گھر سنبھالتی ہو، بچوں کے سب کام، انہیں ہوم ورک کروانا، گھر والوں کا خیال رکھنا۔۔۔ تھک جاتی ہو. میں خود استری کر لیتا ہوں"
"آپ بھی تو صبح سے کام پر جاتے ہیں، ہمارے لیئے تھکتے ہیں، اپنی شرٹس کا رنگ خراب ہو گیا ہے لیکن سب کچھ ہم پر خرچ کر دیتے ہیں، تپتی دھوپ ہو یا برستی بارش، صبح کے گئے شام کو واپس آتے ہیں. رہنے دیں، میں فارغ ہوتے ہی استری کر دیتی ہوں. "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اتنا سا فرق ہے! ایک طرف صرف اپنے حقوق کی بات ہے، دوسری طرف اپنے علاوہ دوسرے کا خیال بھی.
تھوڑا سا احساس، چند میٹھے بول، اور زندگی کتنی آسان ہو جائے۔۔۔

الفاظ


*"الفاظ"*

*"الفاظ" کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ہر "لفظ" اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے،*
*کچھ لفظ "حکومت" کرتے ہیں*

*کچھ "غلامی"*

*کچھ لفظ "حفاظت" کرتے ہیں*

*اور کچھ "وار"۔*

*ہر لفظ کا اپنا ایک مکمّل وجود ہوتا ہے ۔ جب سے میں نے لفظوں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنا شروع کیا،*

*تو سمجھ آیا ۔۔۔۔!!*

*لفظ صرف معنی نہیں رکھتے،*

*یہ تو دانت رکھتے ہیں۔ ۔ ۔ جو کاٹ لیتے ہیں*

*یہ ہاتھ رکھتے ہیں،*
*جو "گریبان" کو پھاڑ دیتے ہیں*

*یہ پاؤں رکھتے ہیں،*
*جو"ٹھوکر" لگا دیتے ہیں*

*اور ان لفظوں کے ہاتھوں میں "لہجہ" کا اسلحہ تھما دیا جائے،*
*تو یہ وجود کو "چھلنی" کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ۔ ۔*

*اپنے لفظوں کے بارے میں "محتاط" ہو جاؤ،*
*انہیں ادا کرنے سے پہلے سوچ لو کہ یہ کسی کے "وجود' کو سمیٹیں گے*
*یا کرچی کرچی بکھیر دیں گے*

*کیونکہ*

*یہ تمہاری "ادائیگی" کے غلام ہیں اور تم ان کے بادشاہ*

*اور "بادشاہ" اپنی رعایا کا ذمہ دار ہوتا ہے*
*اور اپنے سے "بڑے بادشاہ" کو جواب دہ بھی ...*