या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

اخلاقیات


اخلاقیات کے چودہ اصول
1 ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﮔﺎﮌﯼ ﺍﺩﮬﺎﺭ
ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﭘﭩﺮﻭﻝ
 ﮐﯽ ﭨﯿﻨﮑﯽ ﻓﻞ ﮐﺮﻭﺍ ﺩﯾﮟ۔۔ﯾﮧ ﺷﮑﺮﯾﮧ
 ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﮯ۔

2 مسجد میں داخل ھونے کی دعا کے ساتھ ھی اپنا
موبائل بھی آف کر لیں

3 ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﭼﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ
ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻧﺪﺭ
ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺮﯾﮟ۔

4 ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﮭﻼﺋﯿﮟ۔

5 ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﺭﻗﻢ ﺟﻠﺪ ﺍﺯ
ﺟﻠﺪ ﻟﻮﭨﺎﺋﯿﮟ ﭼﺎﮨﮯ ﯾﮧ ﺭﻗﻢ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﺎ ﮨﻮ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﺖ ﺳﻮﭼﯿﮟ
ﮐﮧ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺭﻗﻢ ﮐﯽ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮔﯽ۔

6 ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ
ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺑﺴﺘﺮ
ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﮑﯿﮯ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ
ﻭﺍﭘﺲ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺩﺭ ﮐﯽ ﺳﻠﻮﭨﯿﮟ
ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﺎﺋﯿﮟ۔

7 ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺍﻣﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﺤﺚ ﺳﮯ
ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﯾﮟ ۔۔ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻟﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔

8 ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﭼﺎﮨﮯ
ﻭﮦ ﻣﺎﮞ ﮨﻮ ﯾﺎ ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺖ۔۔
ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﺗﻦ ﺩﮬﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﻣﺪﺩ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﯾﮟ۔

9 ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺍﻡ ﻣﻘﺎﻡ ﭘﺮ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﭘﺮ
ﻭﯾﮉﯾﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﺎ ﮔﯿﻢ ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ
ﺁﻭﺍﺯ ﮐﻢ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﻭﺭﻧﮧ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ
ﺣﻞ ﮨﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮉ ﻓﻮﻧﺰ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮟ۔

10 ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺁﺧﺮﯼ ﻟﻘﻤﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﮭﻮﮌﯾﮟ ﺟﺲ ﻧﮯ
ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﮟ۔

11 ﭨﯿﮑﺴﭧ ﻣﯿﺴﺞ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻌﻠﻖ
ﺧﺘﻢ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ۔۔

12 ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ
ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺑﻨﺎ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺍﻥ ﮐﯽ
ﺫﺍﺗﯽ ﻓﺎﺋﻠﺰ ﻣﺖ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ۔

13 ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﻝ ﻣﺲ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍ ﺍﺱ ﮐﺎﻝ ﺑﯿﮏ ﮐﺮﯾﮟ ﯾﺎ ﻣﯿﺴﺞ
ﮐﺮﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻝ ﻣﺲ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ
ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ۔

14 ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺍﺩﮬﺎﺭ ﻟﯽ ﮔﺌﯽ ﮐﺘﺎﺏ
ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ دﯾﺮ ﻣﺖ ﻟﮕﺎﺋﯿﮟ۔
======####=========####========
سات سوال 
کیا آپ ان سات سوالوں کے جواب جانتے ہیں؟ 


سوال نمبر1
جنت کہاں ہے؟ 
جواب:
جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے،
کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں،
جبکہ جنت کو فنا نہیں ہے،
وہ ہمیشہ رہے گی،
جنت کی چهت عرش رحمن ہے.


سوال نمبر 2:
جہنم کہاں ہے؟ 
جواب:
جہنم ساتوں زمین کے نیچے ایسی جگہ ہے
جس کا نام "سجین" ہے.
جہنم جنت کے بازو میں نہیں ہے،جیسا کہ بعض لوگ سوچتے ہیں.
جس زمین پر ہم رہتے ہیں
یہ پہلی زمین ہے،
اس کے علاوہ چھ زمینیں اور ہیں
جو ہماری زمین کے نیچے ہماری زمین سے علیحدہ اور جدا ہیں.


سوال نمبر 3:
سدر ة المنتهی کیا ہے؟
جواب:
سدرة عربی میں بیری /اور بیری کے درخت کو کہتے ہیں،
المنتہی یعنی آخری حد،
یہ بیری کا درخت وہ آخری مقام ہے
جو مخلوقات کی حد ہے.
اس سے آگے حضرت جبرئیل بهی نہیں جا پاتے ہیں. 
سدرة المنتهی ایک عظیم الشان درخت ہے،
اس کی جڑیں چهٹے آسمان میں
اور اونچائیاں ساتویں آسمان سے بھی بلند ہیں،
اس کے پتے ہاتهی کے کان جتنے
اور پهل بڑے گهڑے جیسے ہیں،
اس پر سنہری تتلیاں منڈلاتی ہیں ،
یہ درخت جنت سے باہر ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جبریل علیہ السلام کو اسی درخت کے پاس ان کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا تها،
جبکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں پہلی مرتبہ اپنی اصل صورت میں مکہ مکرمہ میں مقام اجیاد پر دیکها تها.


سوال نمبر 4:
حورعین کون ہیں؟ 
جواب:
حور عین جنت میں مومنین کی بیویاں ہوں گی،
یہ نہ انسان ہیں نہ جن ہیں اور نہ ہی فرشتہ ہیں،
اللہ تعالیٰ نے انہیں مستقل پیدا کیا ہے،
یہ اتنی خوبصورت ہیں کہ اگر دنیا میں ان میں سے کسی ایک کی محض جھلک دکھائی دے جائے،
تو مشرق اور مغرب کے درمیان روشنی ہو جائے.
حور عربی زبان کا لفظ ہے ،
اور حوراء کی جمع ہے،
اس کے معنی ایسی آنکھ جس کی پتلیاں نہایت سیاه ہوں اور اس کے اطراف نہایت سفید ہوں.
اور عین عربی میں عیناء کی جمع ہے
اس کے معنی ہیں بڑی بڑی آنکھوں والی.


سوال 5:
ولدان مخلدون کون ہیں؟
جواب:
یہ اہل جنت کے خادم ہیں،
یہ بهی انسان یا جن یا فرشتے نہیں ہیں،
انہیں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی خدمت کے لئے مستقل پیدا کیا ہے،
یہ ہمیشہ ایک ہی عمر کے یعنی بچے ہی رہیں گے،
اس لیے انہیں "الولدان المخلدون" کہا جاتا ہے.
سب سے کم درجہ کے جنتی کو
دس ہزار ولدان مخلدون عطا ہوں گے.


سوال نمبر 6:
اعراف کیا ہے؟ 
جواب:
جنت کی چوڑی فصیل کو اعراف کہتے ہیں.
اس پر وہ لوگ ہوں گے
جن کے نیک اعمال اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی،
ایک لمبے عرصہ تک وہ اس پر رہیں گے
اور اللہ سے امید رکهیں گے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جنت میں داخل کردے.
انہیں وہاں بهی کهانے پینے کے لیے دیا جائے گا،
پهر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے جنت میں داخل کردےگا.


سوال نمبر 7:
قیامت کے دن کی مقدار اور لمبائی کتنی ہے؟
جواب:
پچاس ہزار سال كے برابر.

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
*تعرج الملئكة و الروح اليه في يوم كان مقداره خمسين الف سنة.*

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
"قیامت کے پچاس موقف ہیں، اور ہر موقف ایک ہزار سال کا ہو گا."

جب آیت
*"یوم تبدل الأرض غیر الأرض و السماوات"*
نازل ہوئی
تو
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ
"یا رسول اللہ جب یہ زمین و آسمان بدل دئیے جائیں گے تب ہم کہاں ہوں گے"؟

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

"تب ہم پل صراط پر ہوں گے. 
پل صراط پر سے جب گزر ہوگا
اس وقت صرف تین جگہیں ہوں گی
1.جہنم 
2.جنت
3.پل صراط"


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"سب سے پہلے میں اور میرے امتی پل صراط کو طے کریں گے."



*پل صراط کی تفصیل*

قیامت میں جب موجودہ آسمان اور زمین بدل دئے جائیں گے
اور پل صراط پر سے گزرنا ہوگا
وہاں صرف دو مقامات ہوں گے
جنت اور جہنم.


جنت تک پہنچنے کے لیے
لازما جہنم کے اوپر سے گزرنا ہوگا.

جہنم کے اوپر ایک پل نصب کیا جائے گا،
اسی کا نام" الصراط "ہے،
اس سے گزر کر جب اس کے پار پہنچیں گے
وہاں جنت کا دروازہ ہوگا،
وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہوں گے
اور اہل جنت کا استقبال کریں گے.


یہ پل صراط درج ذیل صفات کا حامل ہو گا:

1- بال سے زیادہ باریک ہوگا.

2- تلوار سے زیادہ تیز ہو گا. 

3- سخت اندھیرے میں ہوگا،
اس کے نیچے گہرائیوں میں جہنم بهی نہایت تاریکی میں ہوگی.,
سخت بپهری ہوئی اور غضبناک ہوگی. 

4- گناہ گار کے گناہ اس پر سے گزرتے وقت مجسم اس کی پیٹھ پر ہوں گے،
اگر اس کے گناہ زیادہ ہوں گے
تو اس کے بوجھ سے اس کی رفتار ہلکی ہو گی،
اللہ تعالیٰ ہمیں اس صورت سے اپنی پناہ میں رکھے.
اور جو شخص گناہوں سے ہلکا ہوگا
تو اس کی رفتار پل صراط پر تیز ہوگی.

5- اس پل کے اوپر آنکڑے لگے ہوئے ہوں گے
اور نیچے کانٹے لگے ہوں گے
جو قدموں کو زخمی کرکے اسے متاثر کریں گے.
لوگ اپنی بد اعمالیوں کے لحاظ سے اس سے متاثر ہوں گے.

6- جن لوگوں کی بے ایمانی اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے پیر پهسل کر وہ جہنم کے گڑهے میں گر رہے ہوں گے
ان کی بلند چیخ پکار سے پل صراط پر دہشت طاری ہو گی.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پل صراط کی دوسری جانب جنت کے دروازے پر کھڑے ہوں گے،

جب تم پل صراط پر پہلا قدم رکھ رہے ہوگے
آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہیں گے"
یا رب سلم، یا رب سلم"

آپ بهی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے درود پڑهئے:
اللهم صل وسلم على الحبيب محمد. 
لوگ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے بہت سوں کو پل صراط سے گرتا ہوا دیکھیں گے
اور بہت سوں کو دیکھیں گے
کہ وہ اس سے نجات پا گئے ہیں.
بندہ اپنے والدین کو پل صراط پر دیکهے گا
لیکن ان کی کوئی فکر نہیں کرےگا،
وہاں تو بس ایک ہی فکر ہو گی کہ کسی طرح خود پار ہو جائے.

روایت میں ہے کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قیامت کو یاد کر کے رونے لگیں،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا:
عائشہ کیا بات ہے؟

حضرت عائشہ نے فرمایا: مجهے قیامت یاد آگئی،
یا رسول اللہ کیا ہم وہاں اپنے والدین کو یاد رکهیں گے؟
کیا وہاں ہم اپنے محبوب لوگوں کو یاد رکھیں گے؟

آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
ہاں یاد رکھیں گے،
لیکن وہاں تین مقامات ایسے ہوں گے
جہاں کوئی یاد نہیں رہے گا
.(1) جب کسی کے اعمال تولے جائیں گے
(2) جب نامہ اعمال دیئے جائیں گے
 (3) جب پل صراط پر ہوں گے.


دنیاوی فتنوں کے مقابلے میں حق پر جمے رہو.
دنیاوی فتنے تو سراب ہیں.
ان کے مقابلہ میں ہمیں مجاہدہ کرنا چاہیے،
اور ہر ایک کو دوسرے کی جنت حاصل کرنے پر مدد کرنا چاہئے
جس کی وسعت آسمانوں اور زمین سے بهی بڑهی ہوئی ہے. 

اس پیغام کو آگے بڑهاتے ہوئے صدقہ جاریہ کی نیت کرنا نہ بهولیں.

یا اللہ ہمیں ان خوش نصیبوں میں کردیجئے
جو پل صراط کو آسانی سے پار کر لیں گے.

اے پروردگار ہمارے لئے حسن خاتمہ کا فیصلہ فرمائیے. آمین


اس تفصیل کے بعد بھی کیا گمان ہے کہ
وہاں کوئی رشتہ داریاں نبھائے گا،
جس کے لئے تم یہاں اپنے اعمال برباد کر رہے ہو؟

مخلوق کے بجائے خالق کی فکر کرو.
اپنے نفس کی فکر کرو
کتنی عمر گزر چکی ہے اور کتنی باقی ہے
کیا اب بهی لا پرواہی اور عیش کی گنجائش ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

=======######=========#####====

🌹🌹🌹

✅♻️اردو سچی کہانیاں ♻️✅


          *○ مہمان  کا اکرام ○*


 صحابہ کرامؓ آپس میں ایک دوسرے سے بہت محبت رکھتے ، ہر ایک کی خبر خیریت معلوم کرتے تھے ۔ اگر کوئ صحابی دوسرے صحابی کے گھر مہمان ہوتے ، تو وہ دوسرے صحابی اپنے مہمان کی خوب عزت کرتے اور کھانے ، پینے ، آرام کرنے ؛ بلکہ ہر چیز میں ان کا پورا خیال رکھتے تھے ۔

     ایک مرتبہ کی بات ہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے ، اس وقت حضرت عمر فاروقؓ ایک تکیہ پر ٹیک لگائیں بیٹھے تھے ، جب انھوں نے حضرت سلمان فارسیؓ کو دیکھا ، تو اکرام میں ان کے لیے تکیہ رکھ دیا ؛ تاکہ وہ اس پر ٹیک لگاکر بیٹھیں ۔ حضرت سلمان فارسیؓ  نے جب دیکھا کہ حضرت عمر فاروقؓ نے میرے لیے تکیہ رکھ دیا ہے اور خود بغیر تکیہ کے بیٹھے ہوئے ہیں ، تو فرمایا : ” اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا “ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا : بھائ سلمان ! اللہ اور اس کے رسول نے کیا سچ فرمایا ؟ ذرا مجھے بھی سنایئے ، حضرت سلمانؓ نے بتایا : ایک مرتبہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ ﷺ ایک تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ، آپ نے وہ تکیہ میرے لیے رکھ دیا ، پھر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے سلمان ! جو مسلمان اپنے مسلمان بھائ کے پاس جاتا ہے اور وہ گھر والا اس مہمان کے اکرام میں تکیہ رکھ دیتا ہے ، تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔ اسی طرح ایک دوسرے موقع پر حضرت عمر فاروقؓ ، حضرت سلمان فارسیؓ کے پاس گئے ، اس مرتبہ حضرت سلمان فارسیؓ نے ان کے لیے ایک تکیہ رکھ دیا ، حضرت عمر فاروقؓ نے پوچھا : سلمان ! یہ کیا بات ہے ؟ خود تو بغیر تکیہ کے بیٹھے ہوئے ہو اور میرے لیے تکیہ رکھ دیا ؟

     حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا : میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کا کوئ دوسرا مسلمان بھائ آتا ہے اور وہ آنے والے اپنے اس مسلمان بھائ کے اکرام میں ایک تکیہ رکھ دیتا ہے (تاکہ وہ اس پر ٹیک لگاکر آرام سے بیٹھے ، اور سونے کی طبیعت ہو ، تو سو جائے ) تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔

    حیات الصحابة للکاندھلویؒ : ٣ / ٢٣١ ، مستدرک حاکم : ٦٥٤٢ ، عن انس بن مالکؓ

♻️اردو سچی کہانیاں ♻️جوائن کریں & شیئر کریں 👇
https://telegram.me/Urdusachekahaniya

______________________________________

*नयी पड़ोसन और नीला दुपट्टा !!*
=====================
मोहल्ले में नयी बहुत ही खूबसूरत और जवान पड़ोसन आकर आबाद हुई, उसके दो छोटे बच्चे थे, उसका शौहर शक्ल से ही खुर्रांट और बदमिज़ाज लगता था, पड़ोसन की ख़ूबसूरती देखकर ही मोहल्ले के तमाम मर्दों की हमदर्दियां उसके साथ हो गयीं !

पड़ोसन ने धीरे धीरे मोहल्ले के घरों में आना जाना शुरू किया, मिर्ज़ा साहब और शेख साहब को अपनी अपनी बेगमों से पता चला कि उस खूबसूरत पड़ोसन का शौहर बहुत ही शक्की और खब्ती था ! वो पड़ोसन अपने शौहर से बहुत खौफ खाती थी, ये सुन कर दोनों मर्द हज़रात की निगाहें आसमान की ओर उठ गयीं, दिल ही दिल में शिकवा कर डाला कि या अल्लाह कैसे कैसे हीरे नाक़द्रों को दे दिए हैं !

एक दिन वो खूबसूरत पड़ोसन सब्ज़ी वाले की दुकान पर शेख साहब को मिली, उसने खुद आगे बढ़कर शेख साहब को सलाम किया, शेख साहब को अपनी क़िस्मत पर नाज़ हुआ, पड़ोसन बोली शेख साहब बुरा न माने तो आपसे कुछ मश्वरा करना था ? शेख साहब ख़ुशी से बावले हो गए, वजह ये भी थी कि उस पड़ोसन ने आम अनजान औरतों की तरह भाई नहीं कहा था, बल्कि शेख साहब कहा था !

शेख साहब ने बड़ी मुश्किल से अपनी ख़ुशी छुपाते हुए मोतबर अंदाज़ में जवाब दिया " जी फरमाइए !"  पड़ोसन ने कहा कि मेरे शौहर अक्सर काम के सिलसिले में बाहर रहते हैं, मैं इतनी पढ़ी लिखी नहीं हूँ, बच्चों के एडमिशन के लिए आपकी रहनुमाई की ज़रुरत थी !

वो आगे बोली कि यूं सड़क पर खड़े होकर बातें करना ठीक नहीं है, आपके पास वक़्त हो तो मेरे घर चल कर कुछ मिनट मुझे समझा दें, ताकि मैं कल ही बच्चों का एडमिशन करा दूँ ! ख़ुशी से बावले हुए शेख साहब चंद मिनट तो क्या सदियां बिताने को तैयार थे, उन्होंने फ़ौरन कहा कि जी ज़रूर चलिए !

शेख साहब पड़ोसन के साथ घर में दाखिल हुए, अभी सोफे पर बैठे ही थे कि बाहर स्कूटर के रुकने की आवाज़ सी आयी, पड़ोसन ने घबराकर कहा कि या अल्लाह लगता है मेरे शौहर आ गए, उन्होंने यहाँ आपको देख लिया तो वो मेरा और आपका दोनों का क़त्ल ही कर डालेंगे, कुछ भी नहीं सुनेंगे, आप एक काम कीजिये वो सामने कपड़ों का ढेर है, आप ये नीला दुपट्टा सर पर डाल लें और उन कपड़ों पर इस्त्री करना शुरू कर दें, मैं उनसे कह दूँगी कि इस्त्री वाली मौसी काम कर रही है !

शेख साहब ने जल्दी से नीला दुपट्टा ओढ़कर शानदार घूंघट निकाला और उस कपडे के ढेर से कपडे लेकर इस्त्री करने लगे, तीन घंटे तक शेख साहब ने ढेर लगे सभी कपड़ों पर इस्त्री कर डाली थी, आखरी कपडे पर इस्त्री पूरी हुई तब तक पड़ोसन का खुर्रांट शौहर भी वापस चला गया ! 

पसीने से लथपथ और थकान से निढाल शेख साहब दुपट्टा फेंक कर घर से निकले, जैसे ही वो निकल कर चार क़दम चले सामने से उनके पडोसी मिर्ज़ा साहब आते दिखाई दिए, शेख साहब की हालत देख कर मिर्ज़ा साहब ने पूछा "कितनी देर से अंदर थे ?" शेख साहब ने कहा "तीन घंटों से, क्योंकि उसका शौहर आ गया था, इसलिए तीन घंटों से कपड़ों पर इस्त्री कर रहा था !"

मिर्ज़ा साहब ने आह भर कर कहा "जिन कपड़ों पर तुमने तीन घंटे घूंघट निकाल कर इस्त्री की है उस कपड़ों के ढेर को कल मैंने चार घंटे बैठ कर धोया है, क्या तुमने भी नीला दुपट्टा ओढ़ा था ?"  🤣😂😛

(उर्दू से अनुवादित)

◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

I M:
عورت کیلئے ایک ہی شادی کا حکم کیوں
سائنس کے دائرے میں
قرآنی معجزات کی ایک جھلک
ایک ماہرِ جنین یہودی
(جو دینی عالم بھی تھا)
کھلے طور پر کہتا ہے کہ
روئے زمین پر مسلم خاتون سے زیادہ پاک باز اور صاف ستھری کسی بھی مذھب کی خاتون نہیں ہے
پورا واقعہ یوں ہے کہ
الپرٹ اینسٹاین انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ایک ماہرِ جنین یہودی پیشوا روبرٹ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا جس کا واحد سبب بنا قرآن میں مذکور مطلقہ کی عدت کے حکم سے واقفیت اور عدت کیلئے تین مہینے کی تحدید کے پیچھے کارفرما حکمت سے شناسائی
اللہ کا فرمان ہے
والمطلقات یتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء
[البقرة:228]
"مطلقات اپنے آپکو تین حیض تک روکے رکھیں"
اس آیت نے ایک حیرت انگیز جدید علم ڈی این اے کے انکشاف کی راہ ہموار کی اور یہ پتا چلا کہ مرد کی منی میں پروٹین دوسرے مرد کے بالمقابل 62 فیصد مختلف ہوا کرتی ہے
اور عورت کا جسم ایک کمپیوٹر کی مانند ہے جب کوئی مرد ہم بستری کرتا ہے  تو عورت کا جسم مرد کی تما بیکٹریاں جذب ومحفوظ کر لیتا ہے
اس لئے طلاق کے فورا بعد اگر عورت کسی دوسرے مرد سے شادی کرلے یا پھر بیک وقت کئی لوگوں سے جسمانی تعلقات استوار کرلے تو اس کے بدن میں کئی ڈی این اے جمع ہو جاتے ہیں جو خطرناک وائرس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں اور جسم کے اندر جان لیوا امراض پیدا ہونے کا سبب بنتے ہیں
 سائنس نے پتا لگایا کہ طلاق کے بعد ایک حیض گزرنے سے 32سے35 فیصد تک پروٹین ختم ہو جاتی ہے
اور دوسرے حیض آنے سے 67 سے 72 تک آدمی کا ڈی این اے زائل ہو جاتا ہے
اور تیسرے حیض میں 99.9%کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور پھر رحم سابقہ ڈی این اے سے پاک ہو جاتا ہے
اور بغیر کسی سائڈ افیکٹ و نقصان کے نئے ڈی این اے قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے
ایک طوائف کئ لوگوں سے تعلقات بناتی ہے جس کے سبب اس کے رحم مختلف مردوں کی منی چلی جاتی ہیں اور جسم مختلف ڈی این اے جمع ہو جاتے ہٰیں
اور اسکے نتیجے میں وہ مہلک امراض کا شکار بن جاتی ہے
اور رہی بات متوفی عنہا کی عدت تو اس کی عدت طلاق شدہ عورت سے زیادہ ہے کیونکہ غم و حزن کے بنا پر سابقہ ڈی این اے جلدی ختم نہیں ہوتا اور اسے ختم ہونے کے لئے پہلے سے زیادہ وقت درکار ہے اور اسی کی رعایت کرتے ہوئے
ایسی عورتوں کےلئے چار مہینے اور دس دن کی عدت رکھی گئی ہے
فر مان الہی ہے
والذين يتوفون منكم و يذرون أزواجا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر و عشرا
[البقرة:٢٣٤]
”اور تم میں سے جس کی وفات ہو جائے اور اپنی بیویاں چھوڑے تو چاہیے کہ وہ چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رکھیں“
اس حقیقت سے راہ پاکر ایک ماہر ڈاکٹر نے امریکہ کے دو مختلف محلے میں تحقیق کیا
ایک محلہ جہاں افریقن نژاد مسلم رھتے ہیں وہاں کی تمام عورتوں کے جنین میں صرف ایک شوہر ہی کا ڈی این اے پایا گیا
جبکہ دوسرا محلہ جہاں اصل امریکن آزاد عورتیں رھتی ہیں ان کے جنین میں ایک سے زائد دو تین لوگوں تک کے ڈی این اے پائے گئے
جب ڈاکٹر نے خود اپنی بیوی کا خون ٹیسٹ کیا تو چونکا دینے والی حقیقت سامنے آئی کہ اس کی بیوی میں تین الگ الگ لوگوں کے ڈی ان اے پائے گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس کی بیوی اسے دھوکہ دے رہی تھی
اور یہ کہ اس کے تین بچوں میں سے صرف ایک اس کا اپنا بچہ ہے
اس کے بعد ڈاکٹر پوری طرح قائل ہوگیا کہ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جو عورتوں کی حفاظت اور سماج کی ہم آہنگی کی ضمانت دیتا ہے اور اس بات کی بھی کہ مسلم عورتیں دنیا کی سب سے صاف ستھری پاک دامن وپاک باز ہوتی ہیں
اہل مسلم اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں

+++++++++++++++++++++++++++++++








No comments:

Post a Comment