या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

Wednesday, October 24, 2018

*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 28

قسط 28..

پچھلی قسط میں ھم نے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے مکہ آنے اور "ننھے حضور" کو اپنے ساتھ دودھ پلانے کی خاطر گاؤں لے جانے کے واقعات بیان کیے.. اب آگے کے حالات کا ذکر کیا جاۓ گا..

حلیمہ سعدیہ کے گھر میں کل چھ افراد رہا کرتے تھے.. شوہر حارث , شیر خوار عبداللہ , بیٹیاں انیسہ , حذیفہ اور جدامہ (رضی اللہ عنہا).. ( ان ہی کا لقب شیما تھا) عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کی قسمت کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دودھ شریک بھائی کا شرف حاصل ھوا..

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا بڑے ہوئے اور پاؤں پاؤں چلنے لگے تو شیما (رضی اللہ عنہا) ہی زیادہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھیلا کرتیں.. اس کھیل کے دوران ایک مرتبہ شیما (رضی اللہ عنہا) نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت تنگ کیا تو غصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کندھے پر اس زور سے کاٹا کہ دانتوں کے نشان بیٹھ گئے.. یہ نشان ان کے لئے اُس وقت باعث رحمت بن گئے جب کہ غزوۂ حنین کے بعد شیما مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضاعی بہن ہوں.. 

جب مسلمانوں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بچپن کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے اپنے کندھے پر دانتوں کے نشان دکھائے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا واقعہ یاد آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بڑے احترام سے اپنی چادر بچھا کر بٹھایا اور فرمایا کہ اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بہن کی طرح رہ سکتی ہو لیکن انہوں نے عرض کیا کہ وہ اپنے وطن لوٹ جانا چاہتی ہیں.. انہوں نے اسلام قبول کرلیا.. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں جو عطایا دئیے ان میں تین غلام , باندیاں , کچھ اونٹ اور بکریاں شامل تھیں..

ان چاروں میں سے جناب عبداللہ رضی اللہ عنہ اور شیما رضی اللہ عنہا کا اسلام لانا تو ثابت ھے لیکن باقی دو کا حال معلوم نہیں جبکہ جناب حارث رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد مکہ آۓ تو تب اسلام قبول کرلیا تھا..

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جو غیر معمولی واقعات مکہ سے واپسی پر شروع ھوۓ وہ ان کے گھر پہنچنے پر بھی جاری رھے.. مریل اور بوڑھی اونٹنی کے تھنوں میں دودھ بھر آیا حالانکہ اس سے قبل بڑی مشکل سے گزارے کے لئے دودھ آتا تھا.. حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سبب خیر و برکت سے ہمارے گھرانے کو نوازتا رہا.. خود حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے دودھ کم اترتا تھا اور خود عبداللہ کے لیے بھی مشکل سے پورا پڑتا تھا لیکن یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارکہ کی برکتیں ھی تھیں کہ آپ کے آتے ھی حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی چھاتیوں میں اتنا دودھ اتر آیا کہ جس کا انہوں نے اس سے پہلے سوچا بھی نہ تھا لیکن اس زمانے میں بھی "ننھے حضور" کی منصف مزاجی اور عدل پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی ایسا نہ کیا کہ ایک پستان کا دودھ پی کر دوسرے سے بھی پی لیں بلکہ دوسری پستان کا دودھ اپنے دودھ شریک بھائی عبداللہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھوڑ دیتے.. اس کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب تک آپ کو دودھ پلاتی رھیں ایسا کبھی نہ ھوا کہ ان کا کوئی بستر یا کوئی دوسرا کپڑا آپ کے بول و براز سے خراب ھوا ھو..

آپ کے دم سے ظہور پذیر برکتیں صرف حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا تک محدود نہ تھیں بلکہ اس کا دائرہ ان کے گھر سے وسیع ھو کر اڑوس پڑوس کے گھروں تک بھی پہنچنے لگا.. قحط اور خشک سالی کی بدولت بنو سعد کے گھرانے کی تمام زمینیں بنجر ہو گئی تھیں اور جانوروں کے تھن دودھ سے محروم ہو گئے تھے.. بستی والے چرواہوں سے کہا کرتے کہ تم بھی اپنی بکریاں وہاں لے جاؤ جہاں حلیمہ سعدیہ (رضی اللہ عنہا) کے جانور چرتے ہیں..

ایک مرتبہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عکاظ کے میلہ میں لے گئیں.. وہاں ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی تو پکار پکار کر کہنے لگا کہ اے عکاظ والو ! اس بچہ کو جان سے مار ڈالو ورنہ یہ بڑا ہو کر تم سب کو مٹا دے گا.. حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر فوراً وہاں سے چلی گئیں..

===========>جاری ھے..

*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 27

*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 27*

*حلیمہ ؓ کی گود میں:* 

حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اپنی چند ہم قبیلہ عورتوں کے ساتھ مکہ وارد ہوئیں، وہ کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں، اس قسط میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی وہ سب دلچسپ واقعات بیان کیے جائیں گے۔

ابن اسحق، جہم بن ابی جہم کی روایت سے حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کی باتیں بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے خود یہ سارا واقعہ سنایا۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: 

"جب قبیلہ بنی سعد (بنو ھوازن اسی بڑے قبیلہ کا ایک ذیلی قبیلہ تھا جس سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تھا) میں کسی سال مکہ میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر پہنچتی تھی تو بنی سعد کی عورتیں ان بچوں کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے مکہ کی طرف لپکنے لگتی تھیں، پھر ایک سال ایسا ہی ہوا کہ مکہ کے معزز اور شریف خاندانوں میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر ملی تو بنی سعد کی دس عورتیں جن میں مَیں بھی شامل تھی، اپنے شوہر حارث بن عبدالعزّیٰ اور اپنے ایک شِیرخوار بچے کے ساتھ مکہ کی طرف چلیں، یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا، میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی، لیکن واللہ! اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا، اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے، نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی، بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے، میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔

خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے، پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش نہ کیا گیا ہو، مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینے سے انکار کر دیتی، کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد ودہش کی امید رکھتے تھے، ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے، بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں؟ بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینا نہیں چاہتے تھے۔

ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا، صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا، جب واپسی کی باری آئی تو مجھے خالی ہاتھ جانا اچھا نہ لگا، میں نے اپنے شوہر سے کہا: "اللہ کی قسم! مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لیے بغیر واپس جاؤں، میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں، شوہر نے کہا: "کوئی حرج نہیں، ممکن ہے کہ اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔" یہ فیصلہ کرکے جہاں میری ساتھی عورتوں نے رات بھر کے لیے پڑاؤ ڈالا تھا، میں بھی رات گزارنے کے لیے وہیں ان کے ساتھ پڑگئی۔

وہ ساری رات میری آنکھوں میں کٹ گئی، کیونکہ نہ تو میرے یا میرے شوہر کے کھانے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی میری گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا تھا، میرا شِیرخوار بچہ عبداللہ ساری رات میرے پستان چچوڑتا رہا، لیکن چونکہ میں خود اس رات فاقہ سے تھی تو میری چھاتیوں سے دودھ کہاں سے اترتا، خیر وہ رات تو میں نے جیسے تیسے جاگ جاگ کاٹ لی اور صبح ہوتے ہی وہی یتیم بچہ لینے چل دی، یہ بھی خیال تھا کہ اس بچے کی ماں سے اتنا تو پیشگی مل ہی جاۓ گا کہ جس سے میں اپنے اور اپنے شوہر کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز اور اپنے گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا لے سکوں گی۔

جب میں اس بچے کو لینے اس کی ماں کے پاس پہنچی تو وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور اپنا بچہ مجھے دیتے ہوۓ اس کی دودھ پلائی کی جو رقم مجھے دی وہ بھی میری توقع سے زیادہ تھی، اس کے علاوہ وہ بچہ جسے میں یتیم سمجھ کر مجبوراً لینے آئی تھی، اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچہ کبھی نہ دیکھا تھا، وہ جب ھمک کر میری گود میں آیا اور پھر میرے سینے سے لگا تو مجھے اتنا سکون ملا کہ جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔

جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے، اس نے جس قدر چاہا شکم سیر ہوکر پیا، اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا، پھر دونوں سوگئے حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے، ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے، انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری، صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا: "حلیمہ! اللہ کی قسم! تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے۔" میں نے کہا: "مجھے بھی یہی توقع ہے۔"

اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا، میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا، لیکن اب و

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 26

قسط 26..

ولادت مبارکہ کے ساتویں دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیقہ کی رسم ادا کی گئی.. اس موقع پر حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ کو دعوت دے کر شریک کیا.. دوران مجلس قریش مکہ میں سے کسی نے دریافت کیا.. "اے عبدالمطلب ! کیا آپ نے اپنے پوتے کا کوئی نام بھی رکھا ھے..؟"

حضرت عبدالمطلب نے فرمایا.. "ھاں میں نے اس کا نام "محمد" (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھا ھے.."

یہ نام سن کر قریش مکہ نے بہت تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کیسا نام ھے کیونکہ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی کا نام "محمد" نہ رکھا گیا تھا اس لیے قریش مکہ کی حیرت بجا تھی..

اس زمانہ میں دستور تھا کہ شھر کے رؤساء اور شرفاء اپنے شیرخوار بچوں کو اطراف کے دیہات اور قصبات میں بھیج دیتے تھے.. یہ رواج اس غرض سے تھا کہ بچے شھری ماحول سے دور ان دیہات اور قصبوں کے خالص بدوی ماحول میں پرورش پاکر نہ صرف خالص عربی زبان سیکھ سکیں اور اپنے اندر فصاحت و بلاغت کا جوھر پیدا کرسکیں بلکہ وھاں چند سال رہ کر عربوں کی خالص خصوصیات بھی اپنے لاشعور میں سمو سکیں..

شرفاء عرب نے مدتوں اس رسم کو محفوظ رکھا.. یہاں تک کہ بنو امیہ نے دمشق میں پایہ تخت قائم کیا اور شاھانہ شان و شوکت میں کسری' و قیصر کی ھمسری کی.. تاھم ان کے بچے حسب معمول صحراؤں میں بدوؤں کے گھر ھی پرورش پاتے رھے لیکن خلیفہ "ولید بن عبدالملک" جب کچھ خاص اسباب کی وجہ سے وھاں نہ جا سکا اور حرم شاھی ھی پلا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ عربی کی فصاحت و بلاغت سے محروم ھوگیا اور بنوامیہ میں وہ واحد خلیفہ تھا جسے فصیح و بلیغ عربی صحیح طرح سے بولنا نہیں آتی تھی..

غرض اس دستور مذکورہ کی خاطر اطراف کے دیہات و قصبات سے عورتیں سال میں دو مرتبہ شھروں کا رخ کرتی تھیں جہاں شھر کے شرفاء اور رؤساء اپنے بچے ان کے حوالے کردیتے اور ساتھ میں معاوضہ کے طور پر ان عورتوں کو اتنا کچھ روپیا پیسہ مل جاتا کہ ان کی زندگی بھی آرام سے گزرتی..

اسی دستور کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش مبارکہ کے چند روز بعد قبیلہ بنو ھوازن کی چند عورتیں شیرخوار بچوں کی تلاش میں مکہ آئیں.. ان میں سے ایک حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں.. اتفاق سے باقی سب عورتیں تو بچے حاصل کرنے میں کامیاب رھیں مگر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بوجوہ بچہ حاصل کرنے میں ناکام رھیں..

اب وہ کیوں ناکام رھیں اور پھر کیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں , اس کے متعلق کتب تاریخ میں حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زبانی بیان کیے گئے نہائت ھی دلچسپ واقعات کا ذکر کیا گیا ھے.. چونکہ یہ واقعات تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ھے اور یہاں قسط کی غیرضروری طوالت کا خطرہ ھے تو ان شاء اللہ یہ سب دلچسپ واقعات اور پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آنے والے عجیب و غریب معجزات کا ذکر آئندہ قسط میں کیا جاۓ گا..

===========>جاری ھے..

Tuesday, October 23, 2018

घरगुती उपचार

*🌹Dr. Sagar shinde🌹     Nutrition Specialist.     7276697950*

*डोकेदुखी :-* डोके दुखत असल्यास १ चिमूटभर मीठ जिभेवर ठेवून अर्ध्या मिनिटाने ग्लासभर पाणी प्यावे. डोकेदुखी लगेच थांबते.

*अर्धशिशी (मायग्रेन) :-* रात्री कच्चा पेरु उगाळून त्याचा लेप कपाळावर लावावा. सकाळी हा लेप धुवून टाकावा. सलग १० दिवस हा प्रयोग केल्यास अर्धशिशीचा त्रास नाहीसा होतो.

*पूर्ण डोके दुखणे :-* निर्गुडीचा पाला मिठाच्या पाण्याने धुवून घ्यावा. तो स्वच्छ हाताने चुरगाळून त्याच्या रसाचे १-२ थेंब नाकात सोडावेत आणि डोके मागे करुन अर्धा तास झोपावे.

*सायनस :-*सुंठ आणि गूळ समप्रमाणात उगाळावे. त्यात अर्धा चमचा पाणी घालून ते कोमट होईपर्यंत गरम करावे. वस्त्रगाळ करुन प्रत्येकी अर्धा चमचा दोन्ही नाकपुड्यात सोडावे. डोके मागे करुन अर्धा तास झोपावे. त्यानंतर अर्ध्या तासाने पुन्हा हाच प्रयोग करणे.

*केसगळती :-* घाणीवरील खोबरेल तेल (ब्रॅण्डेड नको) पाव लिटर, तुळशीची २ पाने, जास्वंदाच्या झाडाची २ पाने (फुलाची नव्हे), १ चमचा ब्राह्मी पावडर, १ चमचा आवळा पावडर आणि मधमाश्यांच्या पोळ्याचे मेण (मेणबत्तीचे नव्हे) १५ ते २० ग्रॅम्स एकत्र करुन मंद आचेवर शिजवावे. त्याचा रंग हिरवा झाल्यानंतर (काळे होऊ देऊ नये) ते गाळून घ्यावे. ह्या तेलाने रोज रात्री १० मिनिटे केसांच्या मुळांना मालिश करावे. सुरुवातीला सलग आठ दिवस हा प्रयोग रोज करावा. स्त्रियांनी पुढील दोन महिन्यांपर्यंत आठवड्यातून दोनदा हा प्रयोग करावा. पुरुषांनी रोज करायला हरकत नाही. स्नान करताना स्त्रियांनी कोमट पाण्याने आणि पुरुषांनी थंड पाण्याने आंघोळ करावी.

*डोळ्यांसाठी :-* नागवेलीचे (विड्याचे) पान मिठाच्या पाण्याने स्वच्छ धुवून, स्वच्छ हाताने चुरगाळावे व त्याचा रसाचा एक-एक थेंब दोन्ही नाकपुड्यात सोडावेत. रोज हा प्रयोग केल्यास दृष्टी चांगली राहते, आयुष्यभर चष्मा लागत नाही, काचबिंदू/ मोतीबिंदू इत्यादी नेत्ररोग होत नाहीत.

*नाकातील हाड वाढल्यास :-* ५ रिठे व १ चमचा सुंठ पावडर ३ कप पाण्यात अर्धा कप पाणी होईपर्यंत उकळावे. नंतर हे पाणी वस्त्रगाळ करुन घ्यावे. कोमट झाल्यानंतर ते काचेच्या स्वच्छ बाटलीत भरुन ठेवावे. रोज रात्री झोपण्यापूर्वी दोन्ही नाकपुड्यात त्याचे २-२ थेंब सोडावेत. सलग १० दिवस हा प्रयोग केल्यास नाकातील वाढलेले हाड कायमस्वरुपी पूर्ववत होते.

*सर्दीचा त्रास झाल्यास :-* दोन्ही हाताचे अंगठे मुठीत ठेवून त्या मुठी विरुद्ध हाताच्या काखेमध्ये २ मिनिटे दाबून ठेवल्यास सर्दीचा त्रास कमी होतो.

*वजन कमी करण्यासाठी :-* ताजे ताक घुसळून त्यातील लोणी काढून टाकावे व १ लिटर ताकात २ लिटर पाणी या प्रमाणात हे ताक एक दिवसाआड रोज प्यावे.

*हृदय मजबूत होण्यासाठी :-* रोज सकाळी नियमितपणे लसणाची एक पाकळी खावी. हृदयरोग्याने २ पाकळ्या खाव्यात. यामुळे ब्लॉकेजेस निघून जातात.

*कफ वाढल्यास किंवा दम लागत असल्यास :-* कांदा किसून त्याचा रस काढावा. हा रस कापडातून गाळून घ्यावा व एक मोठा चमचा भरुन प्यावा. त्यानंतर अर्ध्या मिनिटाने गरम पाणी प्यावे. यामुळे १० मिनिटात सर्व कफ निघून जातो, श्वास मोकळा होतो, ऑक्सिजनचा पुरवठा वाढतो व दम लागत नाही.

*लहान मुलांच्या सर्दी व कफासाठी :-* अर्धा चमचा मोहरी कुटून त्यात १ थेंब मध घालावा व त्याचा वास द्यावा. कफ मोकळा होऊन सर्दी जाते.

*अपचनाचा त्रास :-* रोज एक वेलदोडा (वेलची) घेऊन त्यातील काळे दाणे अर्ध्या-एक तासाने एक-एक तोंडात टाकून चघळून खावेत.

*हार्ट ॲटॅक आल्यास :-* लगेच १ चमचाभर तुळशीच्या पानांचा रस प्यावा. त्यानंतर १-२ मिनिटांनी बोटाच्या पेराएवढा आल्याचा तुकडा घेऊन तो किसावा. त्यावर अर्धा चमचा लिंबाचा रस पिळून चवीपुरते मीठ घालावे व ते मिश्रण चोखावे व उरलेला रस पिऊन टाकावा. यामुळे ५ मिनिटात हार्ट ॲटॅक निघून जातो.

*अपचनाचा त्रास :-* बोटाच्या पेराएवढा आल्याचा तुकडा घेऊन तो किसावा. त्यावर अर्धा चमचा लिंबाचा रस पिळून चवीपुरते मीठ घालावे व ते मिश्रण चोखावे. यामुळे ५ मिनिटात करपट ढेकर थांबते व अपचनाचा त्रास नाहीसा होतो.

*पोटाचा घेर (लठ्ठपणा) कमी करण्यासाठी :-* रोज जेवल्यानंतर बोटाच्या पेराएवढा आल्याचा तुकडा घेऊन तो किसावा. त्यावर अर्धा चमचा लिंबाचा रस पिळून चवीपुरते मीठ घालावे व ते मिश्रण चोखावे. अर्धा चमचा जिरे व ओवा *(यामध्ये थोडीशी बडीशेप घातल्यास चालेल)** चावून कोमट पाण्याबरोबर गिळणे. सकाळी व दुपारी समान प्रमाणात आहार घ्यावा. म्हणजे सकाळी २ पोळ्या खाल्ल्यास दुपारी सुद्धा २ पोळ्या खाव्यात. मात्र रात्री त्याच्या निम्म्या प्रमाणात म्हणजे १ पोळी खावी. जेवल्यानंतर कोणत्याही थंड पदार्थाचे (उदा. आईस्क्री म, सरबत वगैरे) सेवन करु नये.

*स्त्रियांचे पोट कमी करण्यासाठी :-* पायाच्या बोटात चांदीची जाड जोडवी घालावीत. मोठ्या चमचाभर तिळाच्या तेलात २ चिमूटभर सैंधव मीठ घालून रोज रात्री झोपण्यापूर्वी १० मिनिटे आधी हे मिश्रण प्यावे. यामुळे वजन हमखास कमी होते.

*मूळव्याध :-* अर्धा लिंबू घेऊन त्यावर सैंधव मीठ भुरभुरावे व ते चोखून खावे. सलग १० ते १५ दिवस दिवसातून ४-५ वेळा हा प्रयोग केल्यास मूळव्याध नाहीशी होते.

*मूतखडा (किडनी स्टोन) :-* दगडी पाला (कंबरमोडीचा पाला) मिठाच्या पाण्याने धुवून त्याचा रस काढावा. सलग १५ दिवस सूर्योदयानंतर व सूर्यास्तापूर्वी अशा २ वेळी प्रत्येकी २ चमचे हा रस प्यावा. वर्षातून एकदा सलग १५ दिवस हा प्रयोग करावा. मूतखड्याचा त्रास कायमचा बरा होतो. रोज १ ग्लास ताक नित्यनेमाने प्यायल्याने देखील मूतखड्याचा त्रास होत नाही.

*कोठा साफ होण्यासाठी :-* सिताफळाची ४ पाने किंवा आंब्याचे एक पान मिठाच्या पाण्याने धुवून खावे. त्याने पोट साफ होते.

*दातांच्या बळकटीसाठी :-* पेरुची १०-१२ पाने तांब्याभर पाण्यात घालून त्यात १ चमचा मीठ व ४-५ लवंगा घालून उकळावे. ते पाणी कोमट झाल्यावर गाळून घेऊन त्यामध्ये दोन वेळा तुरटी फिरवावी आणि त्या पाण्याने खळखळून चूळ भरावी. यामुळे हिरड्यांतून रक्त येणे किंवा दात दुखणे आणि सेन्सेशन थांबते.

*हिरड्या फुगल्यास :-* मोरावळा (मोठा आवळा) घेऊन त्याचे तुकडे करावेत व ते तांब्याभर पाण्यात उकळावे. ते पाणी गाळून घेऊन थोडे गरम असतानाच त्याने खळखळून चूळ भरावी. नंतर लगेच साध्या पाण्याने चूळ भरावी.

*गालगुंड :-* उंबराच्या झाडाचा चीक काढून त्याचा लेप गालावर लावून ठेवावा. गालगुंड बरे होताच तो लेप आपोआप निघून जातो. त्याआधी काढण्याचा प्रयत्न करुनही तो निघत नाही.

*चेहरा धुण्यासाठी :-* ४-५ चमचे दूध घेऊन त्यात २ थेंब लिंबाचा रस घालून १ तास ठेवावे. तासाभराने दह्याप्रमाणे झालेल्या ह्या मिश्रणाचा १० मिनिटे चेहऱ्यावर मसाज करावा. नंतर ते धुवून टाकावेत. हा प्रयोग आठवड्यातून २ वेळा करावा.

*मानेवरील दागिन्यांचे डाग घालविण्यासाठी :-* लिंबाच्या रसात मीठ घालून ते मिश्रण डागांवर चोळून फक्त १ मिनिटच ठेवावे व नंतर लगेच ते पाण्याने धुवून टाकावे.

*संधिवात व हाडांचे दुखणे :-* पांढऱ्या तिळाचे २ चमचे तेल भाकरीच्या पिठात मिसळून भाकऱ्या कराव्या व खाव्या. यामुळे स्पाँडिलिटिस, कंबरदुखी, गुडघेदुखी व सांधेदुखी जाते.

*स्पाँडिलिटिस व मणक्यांचे विकार :-* काळ्या खारकांची २ चमचे पावडर दुधामध्ये शिजवावी. कोमट झाल्यानंतर त्यात १ चमचा तूप घालून रोज सकाळची न्याहारी म्हणून हे मिश्रणच घ्यावे. इतर काहीही खाऊ नये. यामुळे १५ दिवसात मणक्यातील गॅप भरुन येते.

*टकलावर केस येण्यासाठी :-* सकाळी आंघोळ झाल्यानंतर लसणाची पाकळी चुरडून त्याचा रस टकलावर लावून सावलीत सुकू द्यावा. हा प्रयोग २ महिने करावा. केस येण्यास सुरुवात होते.

कांद्याचा रस रात्री केसांना लावून डोक्यावर टोपी घालून झोपावे. या प्रयोगाने केसगळती थांबते.

*झोपेत घोरण्याची समस्या :-* तूप गरम करुन कोमट करावे व त्याचा १-१ थेंब दोन्ही नाकपुड्यांमध्ये सोडावे. हा प्रयोग सलग १५ दिवस केल्यास घोरणे कायमचे बंद होते.

*माथा उठणे :-* गाजराचे पान मिठाच्या पाण्याने धुवून त्यावर दोन्ही बाजूने तूप लावावे व ते तव्यावर चरचर आवाज येईपर्यंत ते गरम करावे. त्या तुपाचे २ थेंब दोन्ही नाकपुड्यांमध्ये सोडून अर्धा तास झोपावे.

*त्वचेला खाज येत असल्यास :-* दर तीन महिन्यातून एकदा सलग ८ दिवस तुरटीच्या पाण्याने आंघोळ करावी.

*मधुमेह (शुगर) :-* सिताफळाच्या झाडाची मध्यम (कोवळी किंवा न पिकलेली) पाने मिठाच्या पाण्यात धुवून व देठ काढून चघळावी व गिळून टाकावी. पहिल्या दिवशी उलट्या, जुलाब याचा त्रास होऊ शकतो. हा प्रयोग सलग १५ दिवस करावा.

जेवल्यानंतर *अर्धा तास* पाणी पिऊ नये. त्यांतर गुळाचा एक खडा खाऊन त्यानंतर पाणी प्यावे. *जेवल्यानंतर गूळ खाल्ल्यामुळे साखर वाढत* नाही.

*दुपारी* बाहेरुन आल्यानंतर *गुळाचा एक खडा* खाऊन त्यावर पाणी प्यावे. यामुळे *साखर वाढत* नाही.

*लूज मोशन :-* चमचाभर *मेथीचे दाणे न चावता* गिळून टाकावेत व त्यावर *अर्धा ग्लास कोमट पाणी* प्यावे.

लहान मुलांच्या पोटात *दुखत असल्यास :-* वाटीभर पाण्यामध्ये १ चमचा वावडिंग रात्रभर भिजत ठेवून *सकाळी उकळून व गाळून* घ्यावे आणि ते पाणी *मुलांना चमच्याने* पाजावे.

आंघोळ करताना आंघोळ संपेपर्यंत *तोंडामध्ये जास्तीत जास्त पाणी भरुन* ठेवावे. त्यामुळे *थायरॉईड, सर्दी, खोकला व ताप* याचा त्रास होत नाही.

स्त्रियांनी पायात चांदीचे पैंजण कायमस्वरुपी घातल्यास *थायराईडचा* त्रास होत नाही व मन शांत, संयमी राहाते.

स्त्रियांनी गळ्याला स्पर्श होईल अशा प्रकारे *सोन्याचा मणी कायमस्वरुपी* घातल्यास *थायराईडचा* त्रास होत नाही.

स्त्रियांनी एक मिनिटभर *दोन्ही भुवयांच्या मध्ये* कपाळावर अनामिकेने *(करंगळीच्या शेजारच्या बोटाने)* कुंकू लावतात तसे घड्याळाच्या *काट्याप्रमाणे वर्तुळाकार मसाज* करावा. *पुरुषांनी दोन्ही भुवयांच्या मध्यभागापासून केसांच्या दिशेने कपाळावर उजव्या हाताच्या अंगठ्याने उभ्या रेषेत तीन वेळा मसाज* करावा. यामुळे *मनावरील ताण* नाहीसा होतो, मन स्थिर राहाते, *वैचारिक पातळी चांगली* राहाते, *डोकेदुखीचा त्रास* होत नाही. *चष्मा लागत* नाही.

गरोदरपणात एक *दिवसाआड शहाळ्याचे पाणी* नियमितपणे प्यावे. यामुळे *बाळंतपण सुखरुपपणे* पार पडते व बाळ धष्टपुष्ट होते.

कोणताही पदार्थ *(अन्न व पेय)* गरम असताना खाऊ-पिऊ नये. तो कोमट असतानाच खावा.

*रोज शक्य होईल तितके चालावे.*

*स्मरणशक्ती :-* वर्षातून एकदा सलग १५ दिवस मुलांना पेरु खायला दिल्यास स्मरणशक्ती वाढते. मुलांना त्राटक शिकविल्यास स्मरणशक्ती व एकाग्रता वाढते.

*कॅन्सर :-* वर्षातून एकदा सलग १५ दिवस गाजराचा रस प्यायल्यास आयुष्यभर कॅन्सर होत नाही.                                                 *🙏SAGAR Shinde🙏*           
      *Nutrition Specialist

Monday, October 15, 2018

Tasika Vibhagni


डाॅ. ए.पी.जे. अब्दुल कलाम

* भारताचे प्रख्यात अवकाश-शास्त्रज्ञ व माजी राष्ट्रपती *


*🌷 जन्म - १५ ऑक्टोबर १९३१*

👉 *अबुल पाकीर ज़ैनुलाब्दीन अब्दुल कलाम ( जन्म : ऑक्टोबर १५, १९३१, तमिळनाडू, भारत )* यांना डॉ. ए. पी. जे. अब्दुल कलाम ह्या नावाने ओळखले जाते. हे भारताचे *अकरावे राष्ट्रपती* ( *कार्यकाळ २५ जुलै, इ.स. २००२ ते २५ जुलै, इ.स. २००७* ) होते. आपल्या आगळ्या कार्यपद्धतीमुळे ते *लोकांचे राष्ट्रपती* म्हणून लोकप्रिय झाले.

*कार्य :-*

*१९६३* मध्ये ते *भारतीय अवकाश संशोधन संस्थेत ( I.S.R.O )* क्षेपणास्त्र विकासातील एसएलव्ही ( सेटेलाइट लॉन्चिंग व्हेईकल ) च्या संशोधनात भाग घेऊ लागले.इंदिरा गांधी पंतप्रधान असताना भारताने क्षेपणास्त्र विकासाचा एकात्मिक कार्यक्रम हाती घेतला त्या वेळी डॉ. कलाम पुन्हा *डीआरडीओ ( D.R.D.O )* मध्ये आले.
स्वदेशी बनावटीची क्षेपणास्त्रे तयार करण्याची त्यांची जिद्द तेव्हा पासूनचीच आहे. भारतीय अवकाश संशोधन संस्थेत ( इस्रो मध्ये ) असताना *सॅटेलाईट लाँन्चिंग व्हेईकल - ३* या प्रकल्पाचे ते प्रमुख झाले. साराभाईनी भारतात विज्ञान तंत्रज्ञानाची आघाडी डॉ. कलाम यांनी सांभाळावी, असे वक्तव्य केले होते, ते पुढे कलामांनी सार्थ करून दाखविले. साराभाईंचेच नाव दिलेल्या *विक्रम साराभाई अवकाश केंद्रा* चे ते प्रमुख झाले.

वैयक्तिक कामापेक्षा सांघिक कामगिरीवर त्यांचा भर असतो व सहकाऱ्यांमधील उत्तम गुणांचा देशाच्या वैज्ञानिक प्रगतीसाठी उपयोग करून घेण्याची कला त्यांच्यामध्ये आहे. क्षेपणास्त्र विकासकार्यामधील *_अग्नी_* क्षेपणास्त्राच्या यशस्वी चाचणीमुळे डॉ. कलाम यांचे जगभरातून कौतुक झाले. पंतप्रधानांचे वैज्ञानिक सल्लागार म्हणून काम करतांना देशाच्या सुरक्षिततेच्या दृष्टीने त्यांनी अनेक प्रभावी धोरणांची आखणी केली. त्यांनी संरक्षण मंत्र्यांचे वैज्ञानिक सल्लागार व डीआरडीओ चे प्रमुख म्हणून त्यांनी *अर्जुन* हा एम.बी.टी.( *Man Battle Tank* ) रणगाडा व लाइट काँबॅट एअरक्राफ्ट ( एलसीए ) यांच्या निर्मितीत महत्त्वाची भूमिका पार पाडली.

विज्ञानाचा परम भोक्ता असणारे डॉ. कलाम मनाने खूप संवेदनशील व साधे होते. त्यांना रुद्रवीणा वाजण्याचा, मुलांशी गप्पा मारण्याचा छंद होता. *भारत सरकारने 'पद्मभूषण', 'पद्यविभूषण' व १९९८ मध्ये 'भारतरत्न' हा सर्वोच्च किताब देऊन त्यांचा सन्मान केला. *

बालपण अथक परिश्रमांत व्यतीत करून विद्येची अखंड साधना करीत खडतर आयुष्य जगलेले, आणि जगातील सर्वात मोठया लोकशाही राष्ट्राच्या राष्ट्रपतिपदी निवड झालेले *डॉ. कलाम, हे युवकांना सदैव प्रेरणा देणारे व्यक्तिमत्त्व होते........

Monday, October 8, 2018

سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 25

*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 25*

*آپ ﷺ کی ولادت کے بعد کے واقعات:*

روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوۓ تو فوراً حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اس خوشخبری کی اطلاع حضرت عبدالمطلب کو دینے کے لیے بھیجا گیا، حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں، ان کا اصل نام برکہ تھا، ان کی شادی بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کردی تھی جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا خوشی کے مارے دوڑتی ہوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دی، حضرت عبدالمطلب جو اس وقت حرم کعبہ میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا سن کر وہ بےحد مسرور ہوئے اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ فوراً گھر پہنچے۔ وہاں "ننھے حضور" صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا، پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا۔

(یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ، دادا حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ہاشم تینوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح نہایت خوبصورت اور مردانہ وجاہت کا پیکر تھے)

بیہقی مختلف حوالوں سے جن میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختون یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوۓ تھے جس پر حضرت عبدالمطلب نے بہت مسرت آمیز حیرت کا اظہار فرمایا۔

بیہقی نے ہی مختلف حوالوں سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپرد کردیا، وہ ہر صبح کو حضرت عبدالمطلب کو بتاتیں کہ انہوں نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا، وہ بتاتیں کہ نومولود یعنی ننھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو ہمیشہ بیدار ہی نظر آتے ہیں اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتے رہتے ہیں، اس پر حضرت عبدالمطلب خوشی کا اظہار فرماتے کہ انہیں امید ہے کہ ان کا پوتا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی شان والا ہوگا۔

شروع کے چند دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا،  دو تین دن بعد آپ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ہوا، حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا "ابو لہب" کی کنیز تھیں، ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں انھیں آزاد کر دیا، حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا، ان کے علاوہ چند اور عورتوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا۔

افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشیاں منانے والا ابو لہب بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بدترین مخالف بن کر سامنے آیا اور وہ اور اس کی بیوی "ام جمیل" ساری زندگی اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

ابولہب شروع اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شاید سب سے بڑا مخالف تھا، غالباً یہی وہ شخص ہے جس نے تب قریش مکہ کو بدراہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بربادی کی بدعائیں دیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر اپنی ساری قوم کو اکٹھا کرکے توحید کی دعوت دی، اس کی بیوی ام جمیل کی سیاہ کاریوں میں ایک یہ سیاہ عمل بھی شامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن راستوں سے گزرنے والے ہوتے یہ ان راستوں پر کانٹے بچھا دیتی، ان دونوں کی مذمت میں ایک پوری سورہ نازل ہوئی جس کا نام اسی بدبخت کے نام پر سورہ ابی لہب ہے، اس کا تفصیلی ذکر آگے آۓ گا۔

==================> جاری ہے ۔۔۔

Sunday, October 7, 2018

سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 24

*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 24

*کفرو شرک کے ایوان لرز اٹھے:* 

سابقہ قسط میں حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی وفات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آنے والے چند غیر معمولی واقعات بیان کیے گئے.. اس قسط میں ایسا ہی ایک غیر معمولی واقعہ جو شہنشاہ ایران کے محل میں پیش آیا، بیان کیا جاۓ گا۔

حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب "ھواتف الجان" میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشہور بادشاہ "نوشیرواں" کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گرپڑے۔

اگر بات یہاں تک ہی محدود رہتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا، مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ہی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پزیر ہوئیں، جن میں ایک یہ تھی کہ شاہی آتشکدے میں پچھلے ہزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی، ایک ہزار سال میں ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ اس مقدس آتشکدے کی آگ بجھی ہو۔ دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش (کھا کر ابلنے) والا ہوگیا۔

نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا، اس نے اپنے مشیر "موبذان" کو بلا کر یہ سب واقعات سناۓ اور اس کی راۓ طلب کی۔

موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرہے ہیں اور انہوں نے دریاۓ دجلہ کو بھی عبور کرلیا ہے۔

نوشیرواں جو پہلے ہی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا، یہ خواب سن کر پریشان ہوگیا،  اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔

موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ہیں تو بہتر ہے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لیے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاہئے، چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم "نعمان بن منذر" کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ فوراً اس کی خدمت میں حاضر ہو اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لائے جو بڑا عالم ہو اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے۔

کسریٰ ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوتا تھا، جیسے روم کے حکمران "قیصر" اور مصر کے حکمران "فرعون" کہلاتے تھے) کا یہ شاہی فرمان ملتے ہی نعمان بن منذر فورا" نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور کسریٰ کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص "عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی" کو بھی ساتھ لے آیا۔

نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا اور پھر ان کی تعبیر پوچھی۔ عبدالمسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاہیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرسکتا ہوں، لیکن میری گزارش ہے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں "سطیح" سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ہیں، دریافت کیا جاۓ کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ہیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ہیں اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ہیں۔

نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا۔

عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا جہاں وہ اپنی زریں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا، عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ہے اور نوشیرواں کی خواہش پر ان کی تعبیر جاننا چاہتا ہے۔

عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ہو گیا اور کسی نہایت گہری سوچ میں ڈوب گیا، عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اس کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے،  شکایتاً چند اشعار پڑھے، جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا۔

سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باہر آیا اور کہا: "جو واقعات تم نے بیان کیے ہیں، اگر وہ صحیح ہیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ہے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ہے تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسریٰ ایران کے ہاتھ سے سلطنت چھن جاۓ گی، بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصرروم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ہوں، یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جاۓ گا، جنہیں موبذان نے خواب میں دریاۓ دجلہ عبور کرتے دیکھا ہے۔"

جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آ کر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی، اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔

بہرکیف! تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ہوئی وہ بلآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی' عنہ کے عہد میں

سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 23

  *سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط: 23*

*آپ ﷺ کی ولادت کے وقت یہودی مذہبی پیشواؤں کی پیشگوئیاں:* 

حافظ ابو نعیم اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں عبدالرحمان بن ابی سعید کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک روز عبدالرحمان ابی سعید بنی اشہل میں ٹھہرے ہوۓ تھے، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی کوئی خبر نہ تھی، مگر اگلے روز جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبیلہ حرب میں مقام ھدنہ پہنچے تو انہوں نے یوشع نام کے ایک یہودی عالم کو کہتے سنا.. "میں دیکھ رہا ہوں کہ "احمد" نام کا ایک نبی مکہ میں پیدا ہونے والا ہے۔"

یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا.. "تو مذاق تو نہیں کر رہا؟ اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ہوں گے؟"

یوشع بولا: "اس کا ظہور حرم کی طرف سے ہوگا، اس کا قد نہ چھوٹا ہوگا نہ بہت طویل۔ اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے، لباس کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ ہوگا۔"

جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ہوئی یہ باتیں سنائیں تو اس کے قبیلے والے یک زبان ہوکر بولے.. "تم ایک یوشع کی بات کرتے ہو.. کل سے یثرب (مدینہ) کے تمام یہودی یہی باتیں کررہے ہیں۔"

اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ہیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے اتفاقا" قبیلہ بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) میں چلے گئے، انہوں نے وہاں دیکھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہیں اور ان کا ایک عالم " زبیر بن باطا" کہہ رہا ہے: 

"آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ہوا ہے اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کہیں کوئی نبی پیدا ہوتا ہے، آج جو نبی پیدا ہوا ہے اس کا نام احمد ہے جو آخری نبی کا نام ہے اور وہ ہجرت کرکے یہیں آۓ گا۔"

یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تمام مذاہب کی مذہبی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ہیں، جن کے مطابق آپ کا نام مبارک تورات و انجیل میں "احمد" آیا ہے۔

جب مدت بعد کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ہوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی، کیونکہ وہ بھی اس کا اتباع کرتی۔"

ابو نعیم چند دوسرے ثقہ راویوں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کا کہنا تھا کہ سرخ ستارہ صرف دنیا کے آخری نبی کی ولادت پر طلوع ہوگا، اس کا نام احمد ہوگا اور وہ ہجرت کرکے یثرب (مدینہ) آۓ گا، ہمارے لیے اس کی اطاعت لازم ہے۔

مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہی یہودی جو اپنی مذہبی کتابوں کی پیشگوئیوں پر کہ ان کا نجات دہندہ نبی عرب میں ظہور پزیر ہوگا اور وہ فلسطین سے اسی انتظار میں یہاں مدینہ آباد ہوگئے تھے، صرف اس حسد کی بنا پر کہ نبی آخرالزماں ان کی قوم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسماعیل میں کیوں پیدا ہوا‌، نہ صرف اپنے قول سے پھر گئے،  بلکہ جانتے بوجھتے اپنے کفر پر بھی قائم رہے۔

ان واقعات کے علاوہ چند اور عجیب ترین واقعات ولادت مبارکہ کے وقت شہنشاہ ایران "کسر'ی" کے محل میں پیش آۓ جب وہاں زلزلہ آیا اور نہ صرف محل کے چودہ کنگرے گرگئے، بلکہ ایک ہزار سال سے روشن شاہی آتش کدے کی آگ بھی یکدم بجھ گئی، جبکہ بحیرہ ساوہ جوش کھا کر خشک ہوگیا.. یہ تمام واقعات اگلی قسط میں بیان کیے جائیں گے..

==================> جاری ہے ۔۔۔

سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط:22

* سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط:22

*آفتاب ہدایت کی شعاعیں ہرطرف پھیل گئیں:*

یہاں ان چند محیر العقول واقعات (جن کی اسنادی حیثیت کمزور ہے) کا ذکر ضروری ہے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آۓ، اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ہے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ درد زہ میں مبتلا تھیں۔

آپ فرماتی ہیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا، اس کے ساتھ ہی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی، اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا۔

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وہاں موجود تھیں اور انہوں نے وہاں سواۓ نور کے کچھ اور نہ دیکھا اور باہر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ہوں۔

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں، ان کا بیان ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ہاتھ میں آۓ تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ہوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے درو دیوار چمک اٹھے۔

اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ہے۔ ہشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا، جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا: "کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ہوا ہے۔؟"

وہ بولے: "نہیں تو" دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت آمنہ بنت وہب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے، اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وہاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ۔

یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روۓ مبارک چاند سے زیادہ روشن ہے، یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے اور پیشانی سے ظاہر ہورہے تھے۔ دوسری طرف جب یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ہوش ہوکر گرگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا: "ارے تجھے کیا ہوا ؟"

وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا: "آج ہم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ہوگیا.."

پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمھاری سطوت کی اب یہ خبر مشرق تا مغرب پھیل جاۓ گی۔

===========>جاری ھے..

Saturday, October 6, 2018

Passion

*Top 10 Qualities of a Great Teacher*

*1.A Long-lasting impact forever* Teachers have long-lasting impacts on the lives of their students, and the greatest teachers inspire students toward greatness.

 *2.An engaging Personality and teaching Style*
A great teacher is very engaging and holds the attention of students in all discussions.

*3.Clear Objectives for Lessons*
A great teacher establishes clear objectives for each lesson and works to meet those specific objectives during each class.

*4.Effective Discipline Skills*
A great teacher has effective discipline skills and can promote positive behaviors and change in the classroom.

*5.Good Classroom Management Skills*
A great teacher has good classroom management skills and can ensure good student behavior, effective study and work habits, and an overall sense of respect in the classroom.

*6.Good Communication with Parents*
A great teacher maintains open communication with parents and keeps them informed of what is going on in the classroom as far as curriculum, discipline, and other issues. They make themselves available for phone calls, meetings, and email.

*7.High Expectations*
A great teacher has high expectations of their students and encourages everyone to always work at their best level.

*8.Knowledge of Curriculum and Standards*
A great teacher has thorough knowledge of the school's curriculum and other standards they must uphold in the classroom. They ensure their teaching meets those standards.

*9.Knowledge of Subject Matter*
This may seem obvious, but is sometimes overlooked. A great teacher has incredible knowledge of and enthusiasm for the subject matter they are teaching. They are prepared to answer questions and keep the material interesting for the students.

*10.Passion for Children and Teaching*
A great teacher is passionate about teaching and working with children. They are excited about influencing students' lives and understand the impact they have.

*11.Strong Rapport with Students*
A great teacher develops a strong rapport with students and establishes trusting relationships

Monday, October 1, 2018

ایک نظم ٹیچرس کے نام


  ایک نظم  ٹیچرس  کے  نام 

ساحل تماپوری

ہر دور میں ہر قوم کے معمار ہیں ٹیچرس
اقوام  کی  تہذیب  کا   معیار  ہیں ٹیچرس

دنیا  کو ترقی کی طرف  چلتے ہیں لےکر
ہر  وقت پڑھانے  کو  یہ تیار  ہیں ٹیچرس

کےجی کی ہو تعلیم یاہو پی جیکی تعلیم
ہر درجہ کی تعلیم کے  مختار ہیں ٹیچرس

محنت  ہی سدا ان کی  وطیرہ رہا  صدیوں
انسانی تمدن کے یہ غم خوار ہیں  ٹیچرس

ٹیچرس کے ہاتھوں سےسنورتی رہی دنیا
ایک  باپ کی  مانند صلاح کار  ہیں ٹیچرس

حاصل  ہے انہیں   مذہبی  دنیا  میں  تفاخر
ہر دھرم میں  تعلیمی نگہدار ہیں   ٹیچرس

سائنس کا میڈیکل کا ہویاہندسہ کا   شعبہ
ہر  شعبہء  تعلیم  کے  اوتار  ہیں   ٹیچرس

بے لوث  و بیباک ہو   خدمات جو   ان   کی  طےہےکہ وہ جنت کےہی حقدارہیں ٹیچرس

اگر آپ استاد ہیں


* اگر آپ استاد ہیں*

تحریر نا معلوم 👇

 پڑھائے گا وہی جسے پڑھانا آتا ہے ۔ ہر قابل شخص قابل استاد نہیں بن سکتا۔

 اگر آپ " زبان (لینگویج) " پڑھاتے ہیں اس کے باوجود آپ کا شاگرد بد زبان اور بدگو ہے تو  آپ کو زبان پڑھانے کے بجائے زبان " سکھانے " کی فکر کرنی چاہیے۔
 آپ نے بچے کو ریاضی کا ہر سوال حل کرنے میں ماہر بنا دیا لیکن اگر وہ اپنی زندگی کے معمولی مسائل تک حل نہیں کرسکتا تو پھر آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ نے ریاضی تو اس کے لیے آسان کردی ہے لیکن زندگی مشکل کرگئے ہیں ۔
میرا ٹیچنگ میں جتنا بھی تجربہ ہے میں نے یہ سیکھا ہے کہ بچہ کتاب سے کچھ بھی نہیں سیکھتا ۔ کتاب تو ایک بے جان چیز ہے وہ بھی نصاب کی کتاب ۔سکھاتا تو استاد ہے ۔
آپ قرآن کی مثال لے لیں بھلا اس سے زیادہ اور کوئی کتاب کیا پُر اثر ہوگی ؟ لیکن ہمارے لیے " *رول ماڈل* "  اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت مبارکہ ہے. تب ہی قرآن کی آیات ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں. 

آپ بچے کو جو کچھ سکھانا چاہتے ہیں وہ بن کر دکھا دیں  بچہ خود سب کچھ سیکھ لے گا. یاد رکھیں اگر استاد کی زندگی میں کوئی مقصد نہیں ہے تو وہ طلبہ کو کوئی مقصدیت نہیں دے سکتا۔
 اگر استاد کی اپنی زندگی ہی بے معنی و بے مقصد ہو تو بھلا وہ اپنے طلبہ کی نیا پار لگانے میں کب کامیاب ہو سکے گا؟

سب سے اہم مسئلہ سننے اور سنانے کا ہے ۔ اساتذہ کے اندر سنانے کی لگن ہوتی ہے ۔ وہ کھری کھری بھی سناتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا سناتے ہیں کہ بھری کلاس میں بچے کی
"عزت نفس" تک مجروح ہوجائے  لیکن سننے کی تڑپ اور جستجو ان میں نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ وہ بچوں کی سنتے بھی سنانے کے ہی لیے ہیں ۔ جو اساتذہ بچوں کو سمجھنے کے لیے سنتے ہیں ۔ کانوں سے نہیں بلکہ دل کے کانوں سے سنتے ہیں اور وہ بچوں کے دل میں اتر جاتے ہیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے آپ کا احترام کریں " *تکلف"* کے لیے نہیں دل سے اٹھ کر آپ کا استقبال کریں تو پھر آپ کو انھیں دل سے سننا پڑے گا ۔ بچوں کے لیے عام طور پر وہ مضمون خود بخود دلچسپ بن جاتا ہے جس مضمون کا استاد ان کے لیے دلچسپ بن جاتا ہے ۔ آپ کی ٹیچنگ کی انتہا اور معراج یہ ہے کہ بچے " فری پیریڈ " میں آپ کو خود بلانے آجائیں  اور جب آپ کلاس سے جانے لگیں تو ان کو تشنگی محسوس ہو ۔ آپ جیسے ہوتے ہیں ویسی ہی "شعاعیں" آپ میں سے نکلنے لگتی ہیں ۔  سورج کو بتانا نہیں پڑتا ہے کہ میں نکل گیا ہوں صبح ہوگئی ہے ۔ پھول اعلان نہیں کرتا ہے کہ میں کھل گیا ہوں اس کی خوشبو پورے باغ کو بتا دیتی ہے کہ کوئی پھول آج کھل گیا ہے ۔ بالکل اسی طرح اگر آپ واقعی قابل استاد ہیں تو پھر طلبہ کو آپ میں سے وہ شعاعیں ہر لمحہ پھوٹتی محسوس ہونے لگیں گی ۔
اگر آپ استاد ہیں اور حادثاتی طور پر ٹیچنگ میں آ گئے ہیں تو کوشش کریں کہ اس کو اپنا شوق بھی بنالیں ۔ *غالب فرماتے ہیں کہ " بندہ کام سے تھک جاتا ہے محبت سے نہیں تھکتا۔"* اس لیے کام سے محبت کرلیں ۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو " اطمینان قلب " نصیب ہوجائے گا ۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو دنیا میں کسی کسی کو ہی ملتی ہے ۔ دوسرا آپ کی سیکھنے کی لگن بڑھ جائے گی ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ آپ کو اتنی عزت دے گا کہ شاید آپ نے سوچا بھی نہ ہو ۔ استاد کو سب سے بڑا فائدہ جو اللہ دیتا ہے وہ یہ کہ اس کے رزق میں برکت ہوجاتی ہے ۔ آپ استاد ہیں تو پھر لوگوں کے دل اور خدا کی رضا دونوں آپ کے منتظر ہیں..!!
☝Copy pest

اچھے استاد کی خوبیاں

*⭕ اچھے استاد کی خوبیاں  *

🔵پڑھانا پیغمبرانہ فعل ہے۔ اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں
⭐اپنی تنخواہ کے ایک ایک پیسے کو حلال کرنے کی کوشش کرے
⭐پورا وقت اسکول میں رہنا اور اصولوں کے مطابق اپنے پورے گھنٹے لینا۔ ۔آپ پر فرض ہے ۔۔اگر آپ پورا وقت اسکول میں نہیں رہتے ہیں۔ ۔اور اپنا اصل کام جو طلبہ کو پڑھانا ہے وہ کرنے کے بجاے آپ چاہے جو کرتے پھریں لیکن وہ نا جائز رہے گا اور اتنے وقت کی تنخواہ آپکی حرام رہیگی۔ ۔سرکاری اصولوں کے مطابق کم از کم جتنے گھنٹے پڑھانا آپ کے لئے ضروری ہے اگر آپ نہیں پڑھاتے یا وہ کام کسی اور سے لیتے ہیں تو یہ آپ کے لئے جائز نہیں ہے۔ ۔۔

⭐اپنے شاگردوں کے ساتھ آپ  کا رویہ بالکل دوستانہ ہو
⭐بچے اپنی گھریلو پریشانیاں بھی آپ کے ساتھ ڈسکس کر سکیں
⭐وقت کے  پابند ہو۔ صوم وصلاة کے پابند ہو۔
ساتھ ہی سماجی اور دینی شعور بھی ہو ۔
⭐بچوں کی پڑھائی کو خدا کی امانت سمجھے
اس میں ہر گز خیانت نہ کرے۔
⭐نصاب کی تکمیل کے ساتھ ساتھ طلبہ کی صلاحیتوں پر بھی دھیان دے۔ ۔ دہرائی کے لئے بھی کافی وقت ہو۔
⭐پڑھانے کا انداز دل چسپ ہو۔ اور مشکل چیز کو باتوں ہی باتوں میں بچوں کو حفظ کرا دے
کلاس روم کو چارٹس وغیرہ سے اچھی طرح مزین رکھے۔
ڈائری رجسٹر صاف ستھرے ہو۔
یہ استاد کی شخصیت کا پتہ دیتے ہیں
⭐ اپنی جیب سے غریب طلبا کی مدد کرے۔
⭐ان سے کسی قسم کا چندہ وغیرہ وصول نہ کرے۔
سوائے سرکاری فیس کے جو بہت معمولی ہوتی ہے۔
⭐بچوں سے جرمانہ وغیرہ وصول کرنا اور اپنی ذات پر لگانا حرام ہے۔
⭐سکول ٹائم میں بنا اشد ضرورت یا شرعی عذر بازار جانا اور ذاتی کام خود کرنا یا بچوں سے کروانا ناجائز ہے۔
⭐بچوں سے یا ہیڈ ماسٹر یا سوسائٹی کے ذمہ داران سے کسی قسم کی کوئی توقع نہ رکھے۔
⭐طلبہ سے زبردستی یا کسی بھی طریقه کا استعمال کرتے ہوئے تحفہ وصول کرنا صحیح نہیں ہے۔ ۔
⭐ستائش،تعریف یا انعام وغیرہ کو اچھا نہ سمجھے۔
⭐صرف خدا سے انعام  کی توقع رکھے۔
وہ بہترین انعام دینے والا ہے۔
⭐اپنا وقت بچوں کی بجائے فضول گپ شپ میں صرف نہ کرے۔
 ⭐بچوں کوسخت سزا بالکل نہ دیں۔ بلکہ ان سے ہوم ورک دوبارہ کرنے کو کہیں۔
حکم عدولی کی صورت میں والدین کو بلا کر بتائیں۔
 ہر ماہ ٹیسٹ کی رپورٹ ضرور گھر بھجوائیں۔ اور والدین کے دستخط کروائیں۔
تاکہ بچے کے فیل ہونے کی صورت میں وہ آپ دکھا سکیں۔
⭐اچھے استاد کو بچے تمام عمر یاد رکھتے ہیں۔
 اور ان کا طرز عمل اپناتے ہیں۔
⭐عزت وہی جو  بچے کے دل میں ہو۔
⭐بدترین وہ استاد ہے جو مار پیٹ کر اور انتقام لے کر بچوں سے عزت کروائے۔
اور جنکا دھیان طلبہ کی تعلیم و تربیت کر بجاے صرف اسکول آنے اور جانے کے ٹائم پر لگا رہتا ہو۔ ۔
⭐بچوں کو صحیح معنوں میں قوم کا خادم بنائیں
ان میں اپنے دین ، والدین شہر اور ملک سے  محبت پیدا ہو۔
اللّه سے دعا  ہے۔ ۔۔یہ اور مزید خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرماے ۔۔۔آمین ۔
MSF