या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

Tuesday, May 29, 2018

مسجد اور بچے

مسجد اور بچے 
محمد انور حسین، اودگیر 

ہمارے معاشرہ میں خوبصورت، عالیشان اور مختلف سہولتوں سے آراستہ مسجدیں بنانے کا رواج بھی زوروں پر ہے ۔اب تو مسجدوں میں کھانا پکانے کے لیے کچن روم ' گیس اور چولہے کا نظم بھی عام ہوتا جارہاہے ۔لیکن مسجد میں بچوں کا مقام آج بھی توجہ کا طالب ہے 
مسجدیں اور اس کی میناریں بچوں کو ہمیشہ لبھاتی رہتی ہیں ۔بچے جب چلنا پھرنا اور اسکول جانا شروع کردیتے ہیں تو مسجد کا رخ بھی کرتے ہیں ۔محلے کے دوستوں، والدین اور بھائیو ں کے ساتھ مسجد جانے لگتے ہیں ۔
لیکن مسجد کے تجربات بہت خوشگوار نہیں ہوتے ۔مسجد میں ان کا سامنا ایک ایسے ترش مزاج بزرگ سے ہوتا ہے جو ہر آنے والے بچے کو اس طرح گھورتے ہیں جیسے وہ کوئی چور اچکا  آیا ہو ۔بچے مسجد میں داخل ہوتے ہی ان کو کسی کونے کی جگہ بتادی جاتی ہے اور سختی کے ساتھ تاکید کی جاتی ہے کہ اسی مخصوص جگہ پر ہی نماز پڑھیں ۔ بچے نماز تو کیا پڑتے ان کی شرارتیں اس بزرگ کے ارد گرد مرکوز ہوجاتی ہیں ۔بچوں کی شرارتوں کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا ۔۔بزرگ کا غصہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے شرارت کی شدت بھی بڑھتی جاتی ہے ۔
بزرگ کا سارا خشوع شرارتوں پر مرکوز ہوتا ہے وہ دل ہی دل میں امام صاحب کے سلام پھیرنے کا انتطار کرتے رہتے ہیں ۔ سلام پھیرتے ہی بزرگ تیزی سے آکر یا تو ایک دو کو رسید کردیتے ہیں یا غصہ میں مسجد کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوے تیسرے درجہ کی گالی دیتے دیتے صرف دوسرے درجہ کی گالی پر اکتفا کرلیتے ہیں ۔اس پورے ڈراونی ڈرامے کا اثر معصوم اور سنجیدہ قسم کے بچوں پر زیادہ ہوتا ہے ۔وہ مسجد کو جانے کے نام سے سہم جاتے ہیں ۔۔
اس کے علاوہ ہر کوئی بچوں کو پیچھے ڈھکیلنے کی کوشش کرتا ہے ۔جب بچے وضو کرتے رہتے ہیں تو بعض حضرات ان کو آدھے وضو سے اٹھادیتے ہیں انھیں اس بات کا بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ بچے کہ نازک دل پر کیا اثر ہواہوگا ۔بچہ اپنی بھرائی ہوئی آنکھیں چھپاتے ہوئے کڑوے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ۔دھیرے دھیرے بچوں کے دل سے نمازیوں سے الفت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔
ایک دو بار کے تلخ تجربات کے بعد ایک اچھی خاصی تعداد مسجد سے دور ہونے لگتی ہے ۔جو بچے ہمت کرکے مسجد آنے لگتے ہیں وہ بھی روزانہ کی بے عزتی سے تنگ آجاتے ہیں ۔
بچوں کے لیے مسجد کے ممبر تک کی رسائی تقریباً نا ممکن ہے ۔کوئی بچہ اگر وہاں تک پہنچنے کی کوشش کر بھی لے تو اس کی خیر نہیں ہوتی ۔
ماں باپ بھی بچوں کو نماز اور مسجد کی طرف متوجہ نہیں کرتے ۔جیسے جیسے بچوں میں شعور آتا جاتا ہے مسجد سے بیزاری پیدا ہوتی ہے اور اگر کبھی مسجد آنا ہو تو وہی کونے میں کھڑے ہوکر واپس چلے جاتے ہیں ۔
جمعہ اور رمضان کے دنوں میں بچوں کے ساتھ بے عزتی کے واقعات میں اضافہ ہوجاتاہے ۔
بچوں کے ساتھ مسجدوں میں اس طرح کے برتاؤ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری ملت بچوں کے مستقبل کے بارے میں کتنی سنجیدہ ہے۔مکاتب کے نام پر جو تعلیم کا نظم جارہی ہے وہاں بھی چھڑی کے خوف کے سایہ میں کچھ چیزوں کو رٹا دینے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔
قربان جائیے تاجدار مدینہ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم  پر کہ آپ سجدے کی حالت میں ہوتے اور آپ کے نواسے آپ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے ۔۔کیا یہ منظر آج کسی مسجد میں نظر آسکتا ہے ۔۔
دوران نماز کسی ماں کی گود سے بچے کے رونے کی آواز آجاتی تو آپ نماز مختصر فرمادیتے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے میں کسی یتیم بچے کو دیکھتے تو شفقت اور محبت سے اسے تیار کرتے اور مسجد لے جاتے ۔۔
ہونا تو یہی چاہیے کہ مسجد میں جب کوئی بچہ پہلی بار آے تو سارے نمازی اس کا استقبال کرے، کچھ انعام دے، امام صاحب کو چاہئے کہ وہ ممبر سے اعلان کرے کہ آج ہماری مسجد میں ایک ننھا نمازی آیا ہے جو روز آیا کرے گا ۔مسجد کے بزرگوں کو چاہیے کہ ان بچوں کے ساتھ شفقت اور بزرگانہ وقار کے ساتھ بات کریں ۔
بچوں کو ایک جگہ بٹھا کر مسجد کے آداب اور احترام سکھاے جاییں ۔کوئی بچہ اگر کوئی چھوٹی سورت یا حدیث یاد کرلے تو اس کو ممبر پر کھڑا کرکے سنا جاے ۔ مسجد میں بچوں کے لیے چھوٹے اور خوبصورت دکھنے والے قران پاک کہ نسخہ جات رکھے جاییں، کچھ اسلامی کتابیں بھی رکھی جاییں ۔پندرہ دن یا مہینہ میں مختلف صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے کچھ مقابلے رکھے جاییں ۔ بزرگ حضرات کسی مناسب وقت میں پیغمبروں اور صحابہ کے قصہ سنانے کی محفلیں سجاییں ۔محلے کے نمازی وقتاََ فوقتاً بچوں کے لیے چاکلیٹ یا مٹھایاں لایا کریں ۔۔۔یہ تو کچھ تجاویز ہیں آپ ارادہ کرلیں تو اور بہت بہتر طریقے اپنا سکتے ہیں ۔
ہماری خواتین تو  پہلے ہی مسجدوں سے محروم ہیں ان کے لیے بھی گنجائش نکالنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اس پہلے بچوں کو مسجدوں سے جوڑنے کی سنجیدہ کوشش ضروری ہے ۔تاکہ آنے والی نسلوں کو نماز کی تاکید کرنے ضرورت نہ رہے بلکہ اسلام کی سربلندی کا عزم رکھنے والے نوجوانوں کی ایک شاندار نسل پروان چڑھے ۔۔۔۔

बारावी परीक्षेचा निकाल

बारावी परीक्षेचा निकाल उद्या जाहीर होणार.

धुळे दि.29(यूबीजी विमर्श)
           राज्य माध्यमिक व उच्च माध्यमिक शिक्षण मंडळाकडून घेण्यात  आलेल्या बारावी परीक्षेचा निकाल उद्या (बुधवार, दिनांक ३० मे ) दुपारी १ वाजता जाहीर होणार आहे.राज्य मंडळाकडून फेब्रुवारी-मार्चमध्ये २०१८ मध्ये बारावीची परीक्षा घेण्यात आली होती. राज्यातून १४ लाख४५ हजार १३२ विद्यार्थ्यानी बारावीची परीक्षा दिली आहे. कला शाखेच्या ४ लाख ८९ हजार, विज्ञान शाखेच्या ५ लाख ८० हजार तर वाणिज्य शाखेच्या ३ लाख ६६ हजार विद्यार्थ्यानी परीक्षा दिली आहे.महाराष्ट्र राज्य माध्यमिक व उच्च माध्यमिक शिक्षण मंडळाच्या संकेतस्थळावर निकाल उपलब्ध होणार आहे.

 1. www.mahresult.nic.in

2. www.result.mkcl.org

3.
www.maharshtraeducation.com

4.Http://www.knowyouerresult.com

5. hscresult.mkcl.org

6.http://jagranjosh.com

7. www.bhaskar.com
या संकेतस्थळावर हा निकाल पहायला मिळणार आहे.

Monday, May 28, 2018

वरिष्ठ व निवड वेतन श्रेणी

*विषय : वरिष्ठ व निवड वेतन श्रेणी साठी पात्र जिल्हा परिषद/नगर पालिका/कटक मंडळ/महानगरपालिका/खाजगी अनुदानित प्राथमिक,माध्यमिक,उच्च माध्यमिक/अनुदानित अध्यापक विद्यालय शिक्षकांची माहिती भरणे बाबत*
➖➖➖➖➖➖➖

*दिनांक २३ ऑक्टोबर २०१७ च्या शासन निर्णय नुसार  प्राथमिक,माध्यमिक,उच्च माध्यमिक,अध्यापक विद्यालयातील शिक्षकांना वरिष्ठ वेतन श्रेणी (१२ वर्षे) व निवड वेतन श्रेणी  (२४ वर्षे ) करिता जे शिक्षक पात्र होत असतील अशा शिक्षकांना या वर्षापासून नवीन स्वरुपात प्रशिक्षण देण्यात येणार आहे. त्यासाठी महाराष्ट्र विद्या प्राधिकरण,पुणे यांचे कडून राज्यातील सर्व व्यवस्थापनाच्या पात्र  पूर्ण वेळ शिक्षकांकडून माहिती मागविण्यात येत आहे. तरी पात्र शिक्षकांनी दिनांक  ३१ मे २०१८ रात्री ११:५९ पर्यंत आपली माहिती खालील link वर भरावी.*

https://www.research.net/r/SYFF2M3

_टीप : सन २०१८/१९ मध्ये उच्च माध्यमिक शिक्षकांसाठी वरिष्ठ व निवड वेतन श्रेणी साठी चे प्रशिक्षण राज्य मंडळ,पुणे यांचे मार्फत घेतले जाणार आहे._

*सेवापूर्व शिक्षण विभाग*
*महाराष्ट्र विद्या प्राधिकरण,पुणे*

Friday, May 25, 2018

*आजार निर्मितीची कारणे*


१. उशीरा झोपणे उशीरा उठणे.
२. दुपारी खुप वेळ झोपणे.
३. व्यायामाचा अभाव
४. मोकळ्या हवेत न फिरणे.
५. शरिराला जरा सुद्धा कोवळे ऊन लागू न देणे.
६. अतिरिक्त क्लोरिन युक्त पाणी पिणे.
७. हातगाडे, हाँटेलमधील व घरी वारंवार तेलकट तिखट पदार्थ खाणे.
८. शिळे अन्न खाणे.
९. व्यसने
१०. दुषित हवा.
११. दिवसभर एकाच जागेवर बसून बैठी कामे करणे.
१२. कामाचा अतिरिक्त ताण घेणे.
१३. गोगांटात किंवा प्रचंड आवाजात राहणे.(ध्वनीप्रदुषण)
१४. शारीरीक स्वच्छतेचा अभाव
१५. घरातील व परिसरातील अस्वच्छता
१६. डाँक्टरांच्या सल्ल्याशिवाय मनानेच मेडीकल मधील गोळ्या खाणे.
१७. शांततेने न जेवणे.
१८. उभे राहुन पाणी पिणे किँवा पदार्थ खाणे.
१९. बेकरिचे पदार्थ खाणे.
२०. सतत Non veg खाणे.
२१. प्लास्टीक पिशवतील विविध पदार्थ खाणे.
२२. कोल्ड्रिंक्स पिणे.
२३. दात न घासणे.
२४. एकच ड्रेस, रुमाल इ. कपडे एका दिवसापेक्षा जास्त वापरणे.
२५. आहारात फळांचा समावेश नसणे.
२६. दुध न पिणे.
२७. अँल्युमिनीयमच्या भांड्यातील स्वयंपाक खाणे.
२८. फ्रिजमधील पाणी पिणे.
२९. antibiotics औषधे वारंवार खाणे.
३०. आहारात मीठ भरपुर खाणे.
इत्यादी
वरिल गोष्टी टाळल्यातर आपले आयुष्य खरोखर निरोगी बनेल.

Wednesday, May 23, 2018

ﺧﻠﯿﻔﮧﺀ ﺳﻮﻡ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ

ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﯿﻔﮧﺀ ﺳﻮﻡ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﭧ ﺍﮐﺎﻭﻧﭧ ﮨﮯ۔۔؟

ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﮨﻮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﯽ ﻣﯿﻮﻧﺴﭙﻠﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ ﮨﮯ۔۔
ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﻞ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔۔۔۔
ﻧﺒﻮﺕ ﮐﮯ ﺗﯿﺮﮨﻮﮞ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﻗﻠﺖ ﺗﮭﯽ ۔۔
ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﮩﻨﮕﮯ ﺩﺍﻣﻮﮞ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﺗﺎ۔۔
ﺍﺱ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ” ﺑﺌﺮِ ﺭﻭﻣﮧ ” ﯾﻌﻨﯽ ﺭﻭﻣﮧ ﮐﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺗﮭﺎ۔۔
ﻭﮨﺎﮞ ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮐﯿﺎ۔۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﯾﮧ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ۔۔۔؟
ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﺳﮯ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﭼﺸﻤﮧ ﻋﻄﺎﺀ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔۔
“ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﺱ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺎ ۔۔
ﮐﻨﻮﺍﮞ ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﺑﺨﺶ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﮐﯽ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ” ﭘﻮﺭﺍ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ ۔۔۔
ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮ ﺩﻭ ۔۔۔
ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ۔۔ “ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺱ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﭘﺮ ﻻﻟﭻ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ ۔۔۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﮩﻨﮕﮯ ﺩﺍﻣﻮﮞ ﻓﺮﺧﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔۔۔
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﻨﺎﻓﻊ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔۔۔
ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻭﮦ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﺳﮯ ﻣﻔﺖ ﭘﺎﻧﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ ۔۔
ﻟﻮﮒ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻣﻔﺖ ﭘﺎﻧﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺫﺧﯿﺮﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ۔۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ ﭘﺎﻧﯽ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﺎ۔۔
ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﻣﺎﻧﺪ ﭘﮍ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺁﺩﮬﺎ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺸﮑﺶ ﮐﺮ ﺩﯼ۔۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻢ ﻭ ﺑﯿﺶ ﭘﯿﻨﺘﯿﺲ ﮨﺰﺍﺭ ﺩﺭﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﻗﻒ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔۔
ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﺩﻭﮔﻨﺎ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮐﯽ۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ” ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮨﮯ۔۔۔ “
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ” ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﮔﻨﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔۔۔ “
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮨﮯ۔۔۔ “
ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﮔﻨﺎ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔۔۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮨﮯ۔۔۔ “
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺭﻗﻢ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﯾﮩﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ ﺭﮨﮯ۔۔۔
ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ” ﺣﻀﺮﺕ ﺁﺧﺮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔۔؟
“ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ” ﻣﯿﺮﺍ ﺭﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮑﯽ ﭘﺮ ﺩﺱ ﮔﻨﺎ ﺍﺟﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔۔۔ “
ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭِ ﺧﻼﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﮐﮭﺠﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﻍ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﮨﻮﺋﯽ ۔۔
ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﺁﻝِ ﺳﻌﻮﺩ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮ ﭘﭽﺎﺱ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔۔
ﺣﮑﻮﻣﺖِ ﻭﻗﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﮔﺮﺩ ﭼﺎﺭﺩﯾﻮﺍﺭﯼ ﺑﻨﻮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﻮﻧﺴﭙﻠﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺭﺟﺴﭩﺮﮈ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔۔
ﻭﺯﺍﺭﺕِ ﺯﺭﺍﻋﺖ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﺠﻮﺭﯾﮟ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺑﯿﻨﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﻭﺍﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔۔
ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﺱ ﺍﮐﺎﻭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺭﻗﻢ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﻨﻮﺭﮦ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰﯼ ﻋﻼﻗﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﻍ ﮐﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﭘﻼﭦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﻓﻨﺪﻕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺭﮨﺎﺋﺸﯽ ﮨﻮﭨﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔۔
ﺍﺱ ﺭﮨﺎﺋﺸﯽ ﮨﻮﭨﻞ ﺳﮯ ﺳﺎﻻﻧﮧ ﭘﭽﺎﺱ ﻣﻠﯿﻦ ﺭﯾﺎﻝ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﮨﮯ ۔۔
ﺟﺲ ﮐﺎ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﺼﮧ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﮑﯿﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻔﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺁﺩﮬﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﯿﻨﮏ ﺍﮐﺎﻭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺎ ۔۔
ﺫﻭﺍﻟﻨﻮﺭﯾﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻮﺹِ ﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻗﺒﻮﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﺪﻗﮧ ﺟﺎﺭﯾﮧ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ۔۔
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻨﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﺌﮯ۔
ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﮐﯽ ۔
ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰﻭﺟﻞ ﮐﻮ ﻗﺮﺽ ﺩﯾﺎ
ﺍﭼﮭﺎ ﻗﺮﺽ !!

अपघाती_मृत्यू : कायद्यातील तरतूदी

*अपघाती_मृत्यू : कायद्यातील तरतूदी*
Accidental Death & Compensation:
(Income Tax Return Required)

जर कोणत्याही व्यक्तिला अपघाती मृत्यु ओढवल्यास आणि ती व्यक्ति सलग मागील ३ वर्षांचे ITR (Income tax return) नोंदणी (फाईल) करत असेल तर त्याला त्या तीन वर्षांचे सरासरी प्रमाणाच्या १० पटीत रक्कम त्याच्या परिवाराला देण्यास सरकारला बंधनकारक आहे.
हा एक सरकारी नियम / लिखीत तरतूद आहे.
(खाली कायदा सेक्शन नंबर नमूद केला आहे)

उदाहरण दाखल: अपघात झालेल्या माणसाची मागील ३ वर्षांची वार्षिक मिळकत आय : ४ लाख, ५ लाख, ६ लाख असा असेल.
तर त्या ३ही वर्षांचे सरासरी होणार ५ लाख रूपये आणि त्याच्या १०पट म्हणजेच ५० लाख रूपये सरकार कडून घेण्याचा अधिकार प्रत्येक आयटिआर भरणार्या व्यक्तिच्या परिवाराला आहे.

बर्याचवेळेस माहिती नसल्याचा अभाव किंवा कायद्यातील गैरसमज ह्यामुळे कोणी सरकारी दरवाजे ठोकत नाही
पण आपण आपला अधिकार हा घेअलाच पाहिजे.
मान्य की मयत व्यक्तिची जागा ह्या पैशातून नक्कीच भरून निघणार नाही पण भविष्यातील काही काळतरी सुखकर जाईल.

जरी सलग ३ वर्ष ITR returns दाखल केले नसेल तर, परिवाराला पैसा मिळणार नाही असे काही नाही; पण अशा परिस्थितीत सरकार कडून एखाद दिड लाख देऊन केस बंद केली जाते. पण जर ३ वर्षाचे सलग फाईलींग नोंद असेल तर ह्या स्थितीत बाजू आणखीन बळकट बनते आणि असे समजले जाते की मयत व्यक्ति त्या परिवाराची कमवणारी व्यक्ति होती. जर ती जिवंत राहीली असती तर त्याच्या परिवाराला ती पुढील १० वर्षामध्ये आताच्या वार्षिक आयच्या १० पट कमवले दिले असते आणि कुटुंबाचे व्यवस्थित पालन पोषणही केले असते.

आपल्यापैकी नोकरी (सर्विस) करणारे बरेच लोग आहेत आणि ते कमवणारे सुद्धा आहेत परंतू , त्यातील बहुतांशी लोक ITR (Return filing) नोंदवत नाही.
अशाने कंपनीद्वारे कपात केलेला हक्काचा पैसा सरकार कडून आपण परत घेत नाही आणि तसेच अशा अपघाती मृत्यूनंतर परिजनांना आपल्या पछ्यातही काही आर्थिक लाभ नाही.

माझ्या काही मित्रपरिवारात / ओळखीत अपघाती मृत्यू अशा बर्याच घटना घडल्या पण माहिती अभावी त्यांच्या कुटूंबांना ह्या संधी पासून मुकावे लागले, म्हणून ही माहिती पोस्ट रूपात आपल्या समोर मांडली आहे.

Source - *Section 166 of the Motor act, 1988 (Supreme Court Judgment under Civil Appeal No. 9858 of 2013, arising out of SLP (C) No. 1056 of 2008) Dt 31 Oct 2013.*
-----------------------------------------------------------------------

टिप: सर्व नोकरवर्गांनी ITR कायम भरला पाहिजे आपल्याला टँक्स पडो अथवा ना पडो. जर आपण आता पर्यंत नोंदणी केली नसल्यास, एकत्रित 2 ही वर्षाचे पण फायलिंग करू शकता

*Adv. Vikas Nawathe*
High Court of Bombay,
Aurangabad.
Mob. 8055141516.

_ख्वाहिश नहीं मुझे मशहूर होने की

🐋
     *dedicated to all my dear friends and relatives*

_ख्वाहिश नहीं मुझे_
_मशहूर होने की,

        _आप मुझे पहचानते हो_
        _बस इतना ही काफी है._


_अच्छे ने अच्छा और_
_बुरे ने बुरा जाना मुझे,_

        _क्यों की जिसकी जितनी जरूरत थी_
        _उसने उतना ही पहचाना मुझे._


_जिन्दगी का फलसफा भी_
_कितना अजीब है,_

        _शामें कटती नहीं और_
        _साल गुजरते चले जा रहें है._


_एक अजीब सी_
_दौड है ये जिन्दगी,_

        _जीत जाओ तो कई_
        _अपने पीछे छूट जाते हैं और_

_हार जाओ तो_
_अपने ही पीछे छोड़ जाते हैं._


_बैठ जाता हूँ_
_मिट्टी पे अकसर,_

        _क्योंकि मुझे अपनी_
        _औकात अच्छी लगती है._

_मैंने समंदर से_
_सीखा है जीने का सलीका,_

        _चुपचाप से बहना और_
        _अपनी मौज मे रेहना._


_ऐसा नहीं की मुझमें_
_कोई ऐब नहीं है,_

        _पर सच कहता हूँ_
        _मुझमें कोई फरेब नहीं है._


_जल जाते है मेरे अंदाज से_
_मेरे दुश्मन,_

              _क्यों की एक मुद्दत से मैंने,
.... न मोहब्बत बदली
      और न दोस्त बदले हैं._


_एक घडी खरीदकर_
_हाथ मे क्या बांध ली_

        _वक्त पीछे ही_
        _पड गया मेरे._

_सोचा था घर बना कर_
_बैठुंगा सुकून से,_

        _पर घर की जरूरतों ने_
        _मुसाफिर बना डाला मुझे._


_सुकून की बात मत कर_
_ऐ गालिब,_

        _बचपन वाला इतवार_
        _अब नहीं आता._


_जीवन की भाग दौड मे_
_क्यूँ वक्त के साथ रंगत खो जाती है ?_

        _हँसती-खेलती जिन्दगी भी_
        _आम हो जाती है._


_एक सवेरा था_
_जब हँसकर उठते थे हम,_

        _और आज कई बार बिना मुस्कुराये_
        _ही शाम हो जाती है._


_कितने दूर निकल गए_
_रिश्तों को निभाते निभाते,_

        _खुद को खो दिया हम ने_
        _अपनों को पाते पाते._


_लोग केहते है_
_हम मुस्कुराते बहुत है,_

        _और हम थक गए_
        _दर्द छुपाते छुपाते._


_खुश हूँ और सबको_
_खुश रखता हूँ,_

        _लापरवाह हूँ फिर भी_
        _सब की परवाह करता हूँ._



_मालूम है_
_कोई मोल नहीं है मेरा फिर भी_

        _कुछ अनमोल लोगों से_
        _रिश्ता रखता हूँ._

روزے کے دوران ہمارے جسم کا ردعمل

روزے کے دوران ہمارے جسم کا ردعمل کیا ہوتا ہے اس بارے  کچھ دلچسپ معلومات :-

پہلے دو روزے :-
پہلے ہی دن بلڈ شگر لیول گرتا ہے یعنی خون سے چینی کے مضر اثرات کا درجہ کم ہو جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے اور خون کا دباؤ کم ہو جاتا یعنی بی پی گر جاتا ہے ۔اعصاب جمع شدہ گلائ کوجن کو آزاد کر دیتے ہیں جس کی وجہ جسمانی کمزوری کا احساس اجاگر ہو جاتا ہے ۔ زہریلے مادوں کی صفائ کے پہلے مرحلہ میں نتیجتا سر درد ۔ چکر آنا ۔ منہ کا بد بودار ہونا اور زبان پر مواد کےجمع ہوتا ہے 

تیسرے سے ساتویں روزے تک :-

جسم کی چربی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور پہلے مرحلہ میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ بعض لوگوں کی جلد ملائم اور چکنا ہو جاتی ہے ۔جسم بھوک کا عادی ہونا شروع کرتا ہے اور اس طرح سال بھر مصرف رہنے والا نظام ہاضمہ رخصت مناتا ہے جس کی اسے اشد ضرورت تھی ۔خون کے سفید جرسومے اور قوت مدافعت میں اضافہ شروع ہو جا تا ہے ۔ ہو سکتا ہے روزے دار کے پھیپڑوں میں معمولی تکلیف ہو اس لیے کہ زہریلے مادوں کی صفائ کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ انتڑیوں اور کولون کی مرمت کا کام شروع ہو جاتا ہے ۔ انتڑیوں کی دیواروں پر جمع مواد ڈھیلا ہو نا شروع ہو جاتا ہے ۔

آتھویں سے پندھدریویں  روزے تک :-
.
آپ پہلے سے توانا محسوس کرتے ہیں ۔ دماغی طور پر چست اور ہلکا محسوس کرتے ہیں ۔ہو سکتا ہے پرانی چوٹ اور زخم محسوس ہو نا شروع ہوں ۔ اس لیے کہ اب آپ کا جسم اپنے دفاع کے لیےپہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہے ۔ جسم اپنے مردہ یا کینسر شدہ سیل کو کھانا شروع کر دیتا ہے جسے عمومی حالات میں کیموتھراپی کے ساتھ مارنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔  اسی وجہ سے خلیات سے پرانی تکالیف اور درد کا احساس نسبتا بڑھ جاتا ہے ۔اعصاب اور ٹانگوں میں تناؤ اس عمل کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے ۔ یہ قوت مدافعت کے جاری عمل کی نشانی ہے ۔روزانہ نمک کے غرارے اعصابی اکڑاؤکا بہترین علاج ہے ۔

سولویں سے تیسویں روزے تک :-

جسم پوری طرح بھوک اور پیاس کو برداشت کا عادی ہو چکا ہے ۔ آپ اپنے آپ کو چست ۔ چاک و چو بند محسوس کرتے ہیں ۔ان دنوں آپ کی زبان بالکل صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے ۔ سانس میں بھی تازگی آجاتی ہے ۔ جسم کے سارے زہریلے مادوں کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ نظام ہاضمہ کی مرمت ہو چکی ہے ۔ جسم سے فالتو چربی اور فاسد مادوں کا اخراج ہو چکا ہے۔بدن اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ بیس روزوں کے بعد دماغ اور یاد داشت تیز ہو جاتے ہے ۔ توجہ اور سوچ کو مرکوز کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے ۔ بلا شک بدن اور روح تیسرے عشرے کی برکات کو بھر پور انداز سے ادا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے ۔
یہ تو دنیا کا فائدہ رہا جو بے شک ہمارے خالق ہماری ہی بھلائ کے لیے ہم پر فرض کیا ۔ مگر دیکھیے اس کی رحمت کا انداز کریمانہ کہ اس کے احکام ماننے سے دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی سنوارنے کا بہترین بندوبست کر دیا ۔ 
سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.

Made me cry


وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ 
"میری بیویوں کو جمع کرو۔"
تمام ازواج مطہرات جمع ہو گئیں۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: 
"کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟"
سب نے کہا اے اللہ کے رسول آپ کو اجازت ہے۔
پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔
اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے 
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟
چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
اور فرماتی ہیں: 
"میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔"
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم
سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ
"لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔"
اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔
نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا:
"یہ کیسی آوازیں ہیں؟
عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔
ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔
پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو آپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہائے گئے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا:
" اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟"
سب نے کہا:
"جی ہاں اے اللہ کے رسول"
ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔!
تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں،
اے لوگو۔۔۔!
مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔"
پھر مزید ارشاد فرمایا:
"اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔"
(یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔)
پھر فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔"
مزید فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے"
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھہ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔
"ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان....."
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
"اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔"
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا:
"اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے۔
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
"اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔"
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔
اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پائے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گئیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پائے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔
فرماتی ہیں:
" آخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گئی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالٰی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔"
أم المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں:
"پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں اور آتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب آجاؤ۔۔۔"
پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب آؤ۔۔۔"
دوبارہ انکے کان میں کوئی بات ارشاد فرمائی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر روئیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ 
پہلی بار (جب میں قریب ہوئی) تو فرمایا:
"فاطمہ! میں آج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔
جس پر میں رو دی۔۔۔۔"
جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
"فاطمہ! میرے اہلِ خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے آ ملو گی۔۔۔"
جس پر میں خوش ہوگئی۔۔۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں:
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا:
"عائشہ! میرے قریب آجاؤ۔۔۔"
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجۂ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگائی اور ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے:
مجھے وہ اعلیٰ و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔)
صدیقہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
"میں سمجھ گئی کہ انہوں نے آخرت کو چن لیا ہے۔"
جبرئیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہوئے:
"یارسول الله! ملَکُ الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔"
آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا:
"جبریل! اسے آنے دو۔۔۔"
ملَکُ الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوئے، اور کہا:
"السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے آپ کی چاہت جاننے کیلئےبھیجا ہے کہ آپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟"
فرمایا:
"مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔"
ملَکُ الموت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
"اے پاکیزہ روح۔۔۔!
اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔!
الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔!
راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!"
سیدہ عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں:
پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے آن رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گئی کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں آیا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔
"رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!"
مسجد آہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ 
ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گئے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔
ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔
اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے:
"خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے آقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گئے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگئے تھے، وہ لوٹ آئیں گے، بہت جلد لوٹ آئیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑائے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔"
اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ آپ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے، رحمت دوعالَم صلی الله علیہ وسلم کے سینۂ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیئے۔۔۔
کہہ رہے تھے:
وآآآ خليلاه، وآآآ صفياه، وآآآ حبيباه، وآآآ نبياه
(ہائے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہائے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہائے میرا محبوب۔۔۔! ہائے میرا نبی۔۔۔!)
پھر آنحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا:
"یا رسول الله! آپ پاکیزہ جئے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگئے۔"
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر آئے اور خطبہ دیا:
"جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔"
سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گئی۔۔۔
عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں:
پھر میں کوئی تنہائی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر روؤں۔۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟"
پھر کہنے لگیں:
"يا أبتاه، أجاب ربا دعاه، يا أبتاه، جنة الفردوس مأواه، يا أبتاه، الى جبريل ننعاه."
(ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گئے، ہائے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔)
اللھم صل علی محمد کما تحب وترضی
Main aaj tak iss se achha messege send nahe kr saka.
JazakAllah.

Sunday, May 13, 2018

सेवाज्येष्ठता व पदोन्नतीबाबतचा

शालेय शिक्षण व क्रीडा विभागाने  दि१४-११-२०१७  चे परिपत्रका नुसार सेवाज्येष्ठता व पदोन्नतीबाबतचा स्पष्टीकरणात्मक काढलेला आदेश व अनुसुची "फ" बाबत*
 *स्पष्टीकरण आपल्या आकलनासाठी देत आहोत .........*
 *मुद्दा क्र.1* --  ज्या दिवशी SSC DEd शिक्षक हे *BA*पदवी धारण करतील , त्याच दिवशी ते *B. A. BEd स्केल साठी पात्र होतील.फ़क्त सदर शाळा / संस्था मध्ये प्रशिक्षित पदवीधर म्हणजे B. Ed. चे पद रिक्त असणे आवश्यक आहे.मात्र पद अथवा वेतनश्रेणी तसेच वरचे वर्ग अध्यापनासाठी मिळाले नाहीत तरी अशा पदवीधर शिक्षकांना सेवाज्येष्ठतेनुसार पदोन्नती मिळू शकते. हे मा. न्यायालयीन निर्णयानुसार सिद्ध झाले आहे. दि. 13/10 /2016 च्या शासननिर्णयानुसार पदवीधर याचा अर्थ कोणत्याही शाखेतील पदवी अधिक  D. Ed.  किंवा B. Ed. असा आहे, हे स्पष्टपणे नमूद केले आहे. म्हणजेच पदवीधर डी. एड्. शिक्षक हा बी. एड्. समकक्ष* समजला जातो.
 *मुद्दा क्र.2* --  इयत्ता  ५ वी ते 10 वीचे वर्ग असणाऱ्या माध्यमिक शाळेत  / संस्थेत सेवेत असणार्‍या सर्वच डी. एड्. व बी. एड् सह रुजू होणार्‍या सर्वच शिक्षकांची एकच एक प्रथम नेमणूक दिनांकानुसार जेष्ठता यादी बनवावी , ह्याच यादीनुसार जो जेष्ठ शिक्षक त्यास उपमुख्याध्यापक /मुख्याध्यापक पदी पदोन्नति द्यावी. DEd साठी BA कधी केले अथवा BEd स्केल कधी मिळाले महत्वाचे नाही , कारण schedul B प्रमाणे SSC D. Ed हे सहा.शिक्षका साठी full fill qualification आहे .दि. *24/1/2017 च्या शासननिर्णयानुसार पदवीधर शिक्षकांच्या जेष्ठतासूचीबाबत मुद्दा क्रमांक 2 मध्ये पदवीधर प्राथमिक शिक्षकांची जेष्ठता यादी करताना मूळ नियुक्ती दिनांकानुसार जेष्ठता निश्चित करावी, हे स्पष्टपणे नमूद केले आहे*
 *मुद्दा क्र.3* -- प्रमाणे पदोन्नती साठी SSC. D. Ed शिक्षकांनी B. A. /B. Com. /B. Sc. पदवी प्राप्त करणे आवश्यक आहे. B. Ed. पदवी केव्हा प्राप्त केली हे महत्वाचे नाही.*नेमणूक दिनांक पदोन्नतीसाठी महत्वाचा आहे*.
*मुद्दा क्र.4*-- प्रमाणे प्राथमिक शिक्षक (SSC DEd ) हा पदवी प्राप्त केल्या दिनांका पासून प्रशिक्षित पदवीधर म्हणून समजला जाईल .तसेच त्याचा अखंड सेवेतील  मुळ नियुक्ती दिनांकच (DEd/BEd) त्याचापदोन्नतीसाठी जेष्ठतेचा दिनांक असेल.
 *मुद्दा क्र.5* -- शिक्षक संवर्ग - - इयत्ता 5 ते 10 - तसेच 12वी  वर्ग असणारी माध्यमिक शाळेतील  (D. Ed/B.Ed) प्रथम नियुक्ति व अखंड सेवा प्रमाणे असणारी सामाईक जेष्ठता यादी ( D. Ed/B. Ed ) अर्हता असणारे सर्व  इयत्तांना (5 ते ई.10 -- 12 ला) शिकविणाऱ्या सर्व शिक्षकांची.सदर जेष्टता यादी ही फ़क्त नेमणूक दिनांक प्रमाणेच करावी.म्हणजे ज्याची नेमणूक आधी तो जेष्ठ असेल.( मग तो प्रथम नेमणूक वेळी D. Ed असो अथवा BEd) परंतु पदोन्नतीचे पद रिक्त होण्यापूर्वी तो , पदोन्नतीसाठी आवश्यक अर्हता पूर्ण करणे आवश्यक आहे. (म. खा. शा. नियमावली 1981 नियम क्रमांक, 3 नुसार ) जो नेमणूक दिनांकाप्रमाणे जेष्ठ शिक्षकच पदोन्नतीसाठी पात्र असेल.
 *मुद्दा क्र.6*-- महाराष्ट्र खाजगी शाळा सेवाशर्ती 1981 च्या schedule F नियम 12 प्रमाणे 'क' संवार्गा साठी आवश्यक अर्हता -- B. A /B.COM/ B. Sc. /B. Ed
 *अर्हता क्र.3* -- B. A /B. COM/ B. Sc/Dip.t ( जुना दोन वर्षांचा अभ्यासक्रम)
 *अर्हता क्र.4*-- B. A /B.COM/ B. Sc / S. T. C. / Dip.ed.( एक वर्षाचा अभ्यासक्रम किंवा तत्सम अभ्यासक्रम 'क' संवार्गात समाविष्ट होण्यासाठी 10 वर्ष सेवा होणे आवश्यक.
 टीप क्रमांक -- 2  (पहाणे आवश्यक)
 या टिप -- 2 चा संबंध अर्हता क्र. 3 शी आहे. यातील Dip.t ( जुना दोन वर्षांचा अभ्यासक्रम) हा D. Ed (दोन वर्षांचा अभ्यासक्रम ) ला समकक्ष आहे.( टिप -- 2 पहा)
*अर्हता क्र.4* मधील व्यवसायिक पात्रता ही 1 वर्षाचा अभ्यासक्रम आहे. या 1 वर्ष अभ्यासक्रमलाच फ़क्त 10 वर्ष सेवेची अट आहे . दोन वर्ष सेवेसाठी नाही.(म्हणजे अर्हता क्र.3 ला नाही. टीप क्र. -- 2 पहा. *कारण टीप-- 2 प्रमाणे SSC नंतर दोन वर्षांचा अभ्यासक्रम हा प्रशिक्षणविषयक अर्हता असून जेष्ठतेच्या प्रयोजना साठी राहील हे स्पष्ट म्हटले आहे*.)
दुसरे असे, की महाराष्ट्र शासन शिक्षण विभागाने 1978 साली Dip.t ( जुना दोन वर्षांचा अभ्यासक्रम) आणि STC , Dip.ed (एक वर्षाचा अभ्यासक्रम) हे बंद करून एकच D. Ed( दोन वर्षांचाअभ्यासक्रम) 1979 पासून सुरु केला आणि हा अभ्यासक्रम Dip.t ( दोन वर्ष अभ्यासक्रम ला समकक्ष आहे ( पहा -- टिप 2)
 *मुद्दा क्र. 7* पदोन्नतीसाठी  इयत्ता 5 ते 10 किंवा 12  पर्यंत वर्ग असणार्‍या माध्यमिक किंवा उच्च माध्यमिक शाळेची(D. Ed. /B. Ed. ) एकच सामाइक सेवाजेष्ठता यादी नियुक्ती दिनांका प्रमाणे असावी.
 प्रथम नियुक्ती दिनांक, अखंड सेवा पात्र असलेला शिक्षक मुख्याध्यापक पदी पदोन्नतीसाठी पात्र ठरेल.

Saturday, May 12, 2018

بد گمانی سے پہلے خوش گمانی کو کچھ وقت دیں

باپ چار بچوں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہوا، ایک سیٹ پرخاموشی سے بیٹھ گیا
اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا
بچے؟
بچے نہیں آفت کے پرکالے تھے۔
انہوں نے ٹرین چلتے ہی آسمان سر پر اٹھا لیا
 کوئی اوپر کی سیٹوں پر چڑھ رہا ہے ،تو کسی نے مسافروں کا سامان چھیڑنا شروع کر دیا
 کوئی چچا میاں کی ٹوپی اتار کر بھاگ رہا ہے تو کوئی زور زور سے چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رہا ہے
مسافر سخت غصے میں ہیں
کیسا باپ ہے ؟
نہ انہیں منع کرتا ہے نہ کچھ کہتا ہے
 کوئی اسے بے حس سمجھ رہا ہے تو کسی کے خیال میں وہ نہایت نکما ہے
 بلآخر جب برداشت کی حد ہو گئی تو ایک صاحب غصے سے اٹھ کر باپ کے پاس پہنچے اور ڈھاڑ کر بولے
"آپ کے بچے ہیں یا مصیبت ؟ آخر آپ ان کو ڈانٹتے کیوں نہیں؟
 باپ نے ان صاحب کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں آنسووں سے لبریز تھیں اور بولا
 'آج صبح ان کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے میں ان کو وہیں لے کر جا رہا ہوں۔ مجھ میں ہمت نہیں کہ ان کو کچھ کہہ سکوں۔ آپ روک سکتے ہیں تو روک لیں ۔۔۔۔۔۔
سارے مسافرایک دم سناٹے میں آ گئے۔۔۔
ایک ہی لمحے میں منظر بالکل بدل چکا تھا
وہ شرارتی بچے سب کو پیارے لگنے لگے تھے
سب آبدیدہ تھے
سب انہیں پیار کر رہے تھے،
اپنے ساتھ چمٹا رہے تھے۔
 زندگی میں ضروری نہیں کہ حقائق وہ ہی ہوں جو بس ہمیں نظر آرہے ہوں
بلکہ وہ بھی ہوسکتے ہیں جو ہمیں نظر نہ آ رہے ہو ں،
یاد رکھیئے
رائے بنانے میں وقت لگائیں،
بد گمانی سے پہلے خوش گمانی کو کچھ وقت دیں،
فیصلے سے پہلے ذرا ایک بار اور سوچ لیں،
بس ایک بار اور۔۔۔۔۔
اور بس اپنے ہی درست اور عقل کل ہونے پہ اصرار نہ کریں۔
اللہ بہت محبت سے ہمیں دیکھ رہا ہے
 اور ہم سے اپنے بندوں کے لئے نرمی اور معافی کا طلبگار ہے۔۔۔۔!!!!

Saturday, May 5, 2018

تلاوت ترتیل کل قرآن ، ایک ایک پارہ کی صورت میں

ماہ مبارک رمضان میں جو لوگ ختم قرآن کا ارادہ رکھتے ھیں ان کے لئے میری طرف سے ایک ھدیہ  ....
تلاوت ترتیل کل قرآن ، ایک ایک پارہ کی صورت میں ، قاری عبد الباسط کی دلنشین آواز میں :

پھلا پاره 1
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/01.mp3

دوسرا پاره 2
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/02.mp3

تیسرا پاره 3
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/03.mp3

چوتھا پاره 4
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/04.mp3

پانچواں پاره 5
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/05.mp3

چھٹا پاره 6
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/06.mp3

ساتواں پاره 7
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/07.mp3

آٹھواں پاره 8
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/08.mp3

نواں پاره 9
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/09.mp3

دسواں پاره 10
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/10.mp3

گیارھواں پاره 11
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/11.mp3

بارھواں پاره 12
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/12.mp3

تیرھواں پارہ 13
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/13.mp3

چودھواں پارہ 14
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/14.mp3

پندرھواں پارہ 15
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/15.mp3

سولھواں پارہ 16
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/16.mp3

سترھواں پارہ 17
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/17.mp3

اٹھارھواں پارہ 18
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/18.mp3

انیسواں پارہ 19
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/19.mp3

بیسواں پارہ 20
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/20.mp3

اکیسواں پارہ 21
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/21.mp3

بائیسواں پارہ 22
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/22.mp3

تئیسواں پارہ 23
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/23.mp3

چوبیسواں پارہ 24
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/24.mp3

پچیسواں پارہ 25
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/25.mp3

چھبیسواں پارہ 26
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/26.mp3

ستائیسواں پارہ 27
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/27.mp3

اٹھائیسواں پارہ 28
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/28.mp3

انتیسواں پارہ 29
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/29.mp3

تیسواں پارہ 30
http://www.sibtayn.com/sound/ar/quran/3abdolbasi6/30.mp3

اس پوسٹ کو دوسروں تک پھنچائے ، جو لوگ کسی بھی طرح راہ قرآن پر گامزن ھیں اور اس کتاب آسمانی کی خدمت کرتے ھیں ، بالخصوص ماہ ضیافت الله میں تو بارگاه احدیت میں مأجور ھیں اور یہ چیز ان کے لئے قرب الھی کا سبب ھے ، انشاء الله خداوند ھم سب کو اس کار خیر کی اور قرآن کریم سے مستفید ھونے کی  توفیق عطا فرمائے ، اور ھمیں قرآن کے ساتھ محشور فرمائے آمین .

Thursday, May 3, 2018

*ایک سے زائد شادیاں*


 *ایک خاتون کادرد بھرا خط*:
لاکھ دفعہ سوچا کہ یہ خط لکھوں یا نہ لکھوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ میری یہ باتیں بعض خواتین پسند نہ کریں بلکہ شاید وہ مجھے پاگل سمجھیں لیکن پھر بھی جو مجھے حق سچ لگا باقاعده ہوش وحواس میں لکھ رہی ہوں۔ میری ان باتوں کو شاید وہ خواتین اچھی طرح سمجھ پائیں گی جو میری طرح کنواری گھروں میں بیٹھی بیٹھی بڑھاپے کی سرحدوں کو چھو رہی ہیں۔ بہر حال میں اپنا مختصر قصہ لکھتی ہوں شاید میرا یہ درد دل کسی بہن کی زندگی سنورنے کا ذریعہ بن جائے اور مجھے اس کی برکت سے امهات المؤمنين رضى الله عنهن کے پڑوس میں جنت الفردوس میں ٹھکانہ مل جائے۔
میری عمر جب20 سال ہو گئی👸🏻 تو میں بھی عام لڑکیوں کی طرح اپنی شادی کے سہانے سپنے دیکھا کرتی اور سہانے سہانے خیالات کی دنیا میں مگن رہتی کہ میرا شوہر ایسا ایسا ہو گا۔ ہم مل جل کر ایسے رہیں گے پھرہمارے بچے ہوں گے اور ہم ان کی ایسی ایسی اچھی پرورش کریں گے وغیرہ وغیرہ.
 اور میں ان لڑکیوں میں سے تھی جوزیادہ شادیاں کرنے والے مرد حضرات کو نا پسند کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی شدید مخالفت کیا کرتی ہیں کیونکہ میں اسے ظلم سمجھتی تھی.. اگر مجھے کسی مرد کے بارے میں پتہ چلتا کہ وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے 
تو میں اس کی اتنی مخالفت کرتی کہ اسے نانی یاد آجاتی اور میں اسے بے تحاشا بد دعائیں دینے لگتی اور اس سلسلے میں میری اپنے بھائیوں اور چچا سے بھی اکثر بحث رہتی وہ مجھے زیادہ شادیوں کی اہمیت کے بارے میں بتاتے۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں اور موجودہ حالات کے اعتبار سے سمجھانے کی بہت کوشش کرتے مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آتی بلکہ میں انہیں بھی چپ کروا دیتی۔
 اسی طرح دن، ہفتے، مہینے سال گزرتے گئے میری عمر 30 سال سے تجاوز کر گئی اور انتظار کرتے کرتے میرے سر پر چاندی چمکنے لگی👵🏻لیکن میرے خوابوں کا شہزادہ نہ آیا....!!!
یا اللہ ! میں کیا کروں؟جی چاہتا کہ گھر سے باہر نکل کر آوازیں لگاؤں کہ مجھے شوہر کی تلاش ہے۔ جوانی کی ابتدا سے لے کرا ب تک میں نے نفس و شیطان کا کس طرح مقابلہ کیا اس بیہودگی اور بے حیائی کے ماحول میں کیسے بچی رہی میں اسے صرف اور صرف اللہ کا فضل اور والدین کی دعائیں ہی سمجھتی ہوں ورنہ۔۔۔۔۔
اگرچہ گھر والے بھائی وغیرہ سب میری ضروریات کا خیال کرتے۔ ہر طرح کی دل جوئی کرتے میرے ساتھ ہنستے کھیلتے مجبوراً مجھے بھی ان کے ساتھ ہنسی مذاق میں شریک ہونا پڑتا لیکن میری وہ ہنسی کھوکھلی ہوتی.
  مجھے وہ حدیث یاد آتی جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ بغیر شادی کے عورت ہو یا مرد مسکین ہوتے ہیں اور واقعی میں نعمتوں بھرے گھر میں مسکین تھی۔ خوشی يا غمی کی تقریب میں رشتہ دار عزیز و اقارب جمع ہوتے تو جی چاہتا کہ ان کو چیخ  چیخ کر بتاؤں کہ مجھے شوہر چاہیے لیکن پھر سوچتی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ کیسی بے شرم لڑکی ہے۔ بس خاموشی اور صبر کے سوا کچھ بھی چارہ نہیں تھا۔
جب میں اپنی ہم جولیوں، سہیلیوں کے بارے میں سوچتی کہ وہ تو اپنے گھروں میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کر رہی ہیں تو مجھے اپنی اس خلافِ فطرت زندگی پر شدید غصہ آتا۔ گھر کی محفلوں میں سب کے ساتھ مل کر ہنستی تو تھی لیکن میرا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ لڑکے تو پھر بھی اپنی شادی کی ضرورت کا احساس گھر والوں کو دلا سکتے ہیں  لیکن لڑکیاں اپنی فطری شرم وحیا میں ہی گھٹی دبی رہتی ہیں۔
 🔅وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ میرے بڑے بھائی کی شادی ایک عالمہ لڑکی سے ہو گئی جو ماشاء اللہ دینی اور دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ تقویٰ ، پاکیزگی اور دیگر صفات حسنہ سے متصف تھی.. شادی کے چند دن بعد ہی گهر  میں مدرستہ البنات شروع کر دیا گیا۔ میں بھی بی اے کے بعد فارغ تھی تو  میں نے بھی اپنی پیاری بھابهی کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر سب سے پہلے داخلہ لے لیا۔ ان کی ترغیبی باتیں سن کر میراکچھ دھیان بٹا، تسلی ہوئی اور مدرسے کی پڑھائی کے ساتھ انہوں نےکچھ مسنون دعائیں و اذکار بھی بتائے جن کے پڑھنےسے دل کو کافی سکون محسوس ہوا۔ وہ تو میرے لیے کوئی رحمت کا فرشتہ ہی ثابت ہوئیں،🔆اگر وہ نہ ہوتیں تو نجانے میں کن گناہوں کی دلدل میں دھنس چکی ہوتی یاخود کشی کی حرام موت مر کر جہنم کی کسی وادی میں دردناک عذاب سہہ رہی ہوتی➖
ایک دن میرے بڑے بھائی گھر آئے اور بتایا کہ آج آپ کے رشتے کیلئے کوئی صاحب آئے تھے لیکن میں نے انکار کر دیا.. میں نے تقریباً چیختے ہوئے پوچھا آخر کیوں؟ کہنے لگے وہ تو پہلے ہی شادی شدہ تھا اور مجھے آپ کا پتہ تھا کہ آپ کبھی بھی دوسری شادی والے مرد کو قبول نہیں کریں گی۔ آپ تو دوسری شادی کرنے والوں کے سخت خلاف ہیں.. میں نے کہا نہیں بھائی نہیں! اب وہ بات نہیں ! جب سے میں نے بھابهی جان کے پاس قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا شروع کیا ہے،سیرت نبوی پڑھی ہے تو قرآن وحدیث کے نور سے میرے  دماغ کی گرہیں کھلنا شروع ہوئیں اورمجھے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمتیں سمجھ آنے لگیں،
اب تو میں کسی مرد کی دوسری کیا تیسری یا چوتھی بیوی بننے کیلئے بھی خوشی سےتیار ہوں ۔۔۔
اور میں نے جو اب تک اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی مخالفت کی اس پر میں  استغفار کرتی ہوں۔
 اللّه کی قسم ! جب تک زیادہ شادیوں والا اللہ کا حکم حضور صلى الله عليه وسلم اور صحابہ رضى الله عنهم کے دور کی طرح عام نہیں ہوگا نکاح آسان ہو ہی نہیں سکتا.. جس مرد نے زندگی بھر ایک ہی شادی کرنے کا فیصلہ اور عزمِ مصمم کر رکھا ہے وہ کبھی بھی کسی مطلقہ ، بیوہ ،غریب، مسکین یا کسی بھی اعتبار سے کسی کمی کا شکار لڑکی سے شادی نہیں کرے گا۔!!!

🔅ایک دن قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے یہ آیت نظر سے گزری :
ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ کَرِهوْا مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاَحْبَطَ اَعْمَالَهُمْ ...
ترجمہ : یہ (ہلاکت) اس لیے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات سےناخوش ہوئے پس اللہ تعالیٰ نے( بھی) ان کے اعمال ضائع کر دیے۔ 
اس پر تو میرے تورونگٹے ہی کھڑے ہو گئے۔ میں نے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو نہ صرف ناپسند سمجھا بلکہ اس کی شدید مخالفت کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے میں اس خط کی وساطت سے مرد حضرات تک یہ پیغام پہنچانا چاہتی ہوں کہ
 اگر عدل کرنے کی نیت اور استطاعت ہو تو آپ ضرور اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو زندہ کیجئے۔ دو ، تین اور چار شادیوں کو فروغ دیجئے اور دکھی دلوں کی دعائیں لیجئے.. باقی جو عورت آئے گی اپنا نصیب ساتھ لے کر آئے گی اوراس سے جو اولاد ہوگی وہ بھی اپنا نصیب ساتھ لائے گی۔ رازق تو صرف ایک اللہ ہے اور اسی اللہ نے قرآن میں شادیوں کی برکت سے غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے.. اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بھی تنگ دستی دور کرنے کایہ ہی نسخہ بتايا ہے۔💞

اس موضوع پر ایک مثال ذہن میں آئی کہ ایک دفعہ حکومت نے فوجیوں کوڈوبتوں کو بچانے کی ایسی ٹریننگ دی کہ ہر فوجی بیک وقت چار چار ڈوبتوں کو بچا سکے!
اچانک زور دار سیلاب⛈🌊 آگیا بے شمار لوگ سیلاب کی زد میں آکر ڈوبنے لگے حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے فوج کو بھیجا کہ جا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بچائیں اب یہ فوجی جوان پانی میں کود کر بجائے چار چار آدمیوں کو نکالنےکے اگرصرف ایک ایک کو نکالنے پر اکتفا کریں اور باقی چیختے چلاتے رہیں بچاؤ بچاؤ، ہمیں بھی بچاؤ اور وہ ان بیچاروں کی سنی ان سنی کر دیں اور انہیں آسانی سے ڈوبنے  اور مرنے دیں.
 تو آپ انہیں کیا کہیں گے؟
حکومت انہیں کیا کہے گی؟
کیاحکومت انہیں شاباش دے گی؟
یا دوسری صورت :
اگر کسی رحم دل فوجی کو ان پر ترس آجائے اور وہ کسی اور ڈوبتے کو بچانے لگے تو پہلے جو چمٹا ہوا ہے وہ کہے کہ خبردار کسی اور کی طرف ہاتھ بڑھایا بس مجھے ہی بچاؤ باقی ڈوبتے مرتے رہیں ان کی طرف دیکھو بھی مت۔!
 اب اسے کیا کہا جائے گا۔؟؟؟
کہیں اس معاملے میں ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا تو نہیں ہو رہا...!!!

 🌟 قال الله تعالیٰ:
فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآء مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ....
(سورة النسا- آیت نمبر 3)

قرآن کریم میں زیادہ شادیوں والی اس آیت میں بالکل یہی واضح نظر آرہا ہے کہ اصل حکم تو زیادہ شادیوں کا ہے مجبوراً ایک پر اکتفا کرنا جائز ہے.
مثلاً  اگر آپ اپنے ملازم کو بھیجیں جاؤ گوشت لاؤ ہاں اگر گوشت نہ ملے تو دال لے آنا۔ یعنی اصل حکم تو گوشت کا ہی ہے مجبوراً دال ہے❕
 اسکی دلیل حضور صلى الله عليه وسلم ، خلفائے راشدین اور اکثر صحابہ کرام رضى الله عنهم کا عمل ہے.. ان میں سے کوئی ایک بھی ہمارے مردوں کی طرح ایک والا نہیں سب کے سب زیادہ شادیوں والے ہیں۔ آپ اگر اپنی دینی  اور دنیاوی مصروفیات کا بہانہ بنائیں تو بھی صحابہ کی زندگیوں کو دیکھیے وہ آپ سے زیادہ دینی اور دنیاوی مصروفیات والے تھے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ عالیشان کی منشاء کو سمجھتے ہوئے ایک سے زائد نکاح کیے.💓💕💞

🔅پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کچھ عرب خواتین پلے کارڈ اٹھائے باقاعدہ جلوس کی شکل میں نکل کر مردوں کو جھنجھوڑ تے ہوئے کہہ رہی تھیں :
 تزوجوا مثنی وثلاث ورباع ان کنتم رجالا ....
کہ اے مردو ! اگرتم واقعی مرد ہو تو دو دو ،تین تین ، چار چار شادیاں کرو اور بے شمار بےنکاحی عورتوں کیلئے حلال کا راستہ آسان کرو..

🔅ضروری نہیں کہ آپ کی پہلی بیوی میں کوئی عیب یا کمی ہو تو ہی آپ یہ قدم اٹھائیں۔ اس کے بغیر بھی آپ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم  کی اتباع میں یہ عمل کر سکتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضى الله عنها ہر لحاظ سے پرفیکٹ تھیں  پھر آپؐ  نے اتنے نکاح فرماے🔹

❣ اور چند باتیں میں ان مسلمان بہنوں سے کرنا چاہتی ہوں جن کواللہ تعالیٰ نے شوہر  سے نوازا ہے وہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ وہ مجھ جیسی کروڑوں بے نکاح مسکین خواتین میں سے نہیں ہیں۔ آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ بے نکاح رہنے میں کیسی کیسی مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ٹھیک ہے آپ پر بھی کچھ مشقتیں آتی رہتی ہیں ان پر توآپ کو ان شاء اللہ اجر ملے گا لیکن یہ خلاف فطرت بے نکاح رہنا انتہائی خطرناک ہے.. میری آپ سے گزارش ہے کہ اگر آپ کے شوہر اس مبارک سنت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں جسے لوگ میری طرح اپنی جہالت اورنادانی کی وجہ سےگناہ سمجھتے ہیں تو برائے مہربانی ان کیلئے ہر گز ہرگز رکاوٹ نہ بنیے۔ حضرت عائشہ رضى الله عنها کو پتہ چل جاتا تھا یہ جو خاتون حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہی ہے۔ اس سے آپ نکاح کر سکتے ہیں لیکن وہ تو کبھی بھی رکاوٹ  نہیں بنیں اور پھر آپ ان خاتون سے نکاح کر بھی لیتے.. 
آپ بھی حضرت عائشه رضى الله عنها کے نقش قدم پرچلتے ہوئے اگر رکاوٹ نہیں بنیں گی تو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ آپ کا حشر فرمائیں گے۔ اللہ سے ڈریے ۔۔۔۔اللہ سے ڈریے۔۔۔۔اللہ سے ڈریے۔ اللہ کے حکم کو پور اکرنے میں اپنے شوہر کی معاون بنیں اور کروڑوں عورتوں میں سے اپنی استطاعت کے بقدر کچھ تو کمی کرنے کا ذریعہ بنيے۔ 
اس حکم کو برا سمجھنے والی میری بہنو ! خدانخواستہ اگرآپ کا شوہر اللہ کو پیارا ہو جائے اور آپ عین جوانی میں بیوہ ہو جائیں اور آپ سے کوئی کنوارہ مرد شادی کرنے کوتیار نہ ہو تو پھر آپ پر کیا بیتے گی۔
 ذرا سوچيے ! حديث کى رُو سے ہم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتےجب تک جو اپنے لیے پسند کرتے ہيں وه هى دوسروں کیلئے پسند نہ کرنے لگيں۔ لهذا جیسے آپ کو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہنا پسند ہے اس طرح آپ دیگر خواتین کے لیے بھی یہ هی پسند کیجيے اور اگر اس سلسلے میں آپ کو کوئی قربانی دینا پڑے تو اللہ کی رضا کیليے قبول کیجيے اور پھر اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے دنیا و آخرت کی خوشیاں حاصل کیجيے۔ میری پیاری بہنو ! یہ دنیا فانی اور عارضی ہے اور دار الامتحان ہے.. آخرت باقی اور ہمیشہ ہمیشہ کیليے اور دار الانعام ہے۔ اس ایثار اور قربانی پر آخرت میں جواللہ تعالیٰ آپ کو انعامات سے نوازیں گے آپ ان کا اندزہ ہی نہیں لگا سکتیں۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار کی ایک جھلک آ پ کو اس سلسلے میں آنے والی تمام مشکلات، مشقتوں اورتکلیفوں کو بھلا دے گی۔ میری دل سے دعا ہے کہ اللہ کرے کہ میری کسی بہن کو اللہ کے اس حکم کو پورا کرنے اور فروغ دینے پر کبھی بھی کوئی تکلیف نہ آئے بلکہ راحت ہی ملتی رہے۔
🌟 اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں سے ایک ماں سے بھی ہزاروں گنا زیادہ محبت کرتے ہیں۔  *اللّه تعالیٰ کے ہر ہر حکم میں اس کی طرف سے رحمتیں اور برکتیں ملتی رہیں گی۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم بھی رحمۃ للعالمین ہیں وہ کبھی بھی ہمیں ایسا حکم صادر نہیں فرما سکتے جو ذرہ برابر بھی ہمارے لیے مشکل اور پریشانی کا باعث ہو*۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو اور اللہ میری جیسی تمام بہنوں کو خیر کے رشتے عطا فرمائے۔ 

  ایک کتاب میں زیادہ شادیاں کرنے کے فضائل اور فوائد پڑھے وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کردوں :
🌹ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر رسول اللہ کی کثرتِ امت والی چاہت پوری ہوگی۔
🌹 زیادہ بیویوں کے مل کر رہنے میں دین کی محنت کرنا آسان ہوسکتا ہے۔
🌹 سوکن بن کر رہنے سے ازواج مطہرات و صحابیات کی مشابہت اور اسکی برکت سے جنت میں ان کی رفاقت ہمیشہ ہمیشہ کیليے مل سکتی ہے اگر اس کی وجہ سے خدانخواستہ کچھ مشقت اس دنیا میں آ بھی گئی تو آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی لامحدود زندگی میں ازواجِ مطہرات کے پڑوس والی جنت کی ایک جھلک سارے دکھوں کو بھلاسکتی ہے۔
🌹 پہلی بیوی میزبان بننے کا ثواب پاتی ہے۔ اگرچہ یہ حکم خواتین کو قدرے مشکل لگتا ہے لیکن وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ میں جو تمام احکامات جو نفس کو پسند ہوں یا گراں سب ھی احکامات قبول کرنے کا جو دعویٰ ہے اس کی دلیل دینے کا موقع ملتا ہے۔ 
🌹 اس کے فروغ دینے سے بیوگان، مطلقات، شکل و صورت یا ذات پات وغیرہ کسی بھی کمی کا شکار خواتین کے لیے بھی نکاح کرنا آسان ہوسکتا ہے کیونکہ ایک ہی نکاح پر اکتفا کرنے کا جو مرد فیصلہ کرتا ہے تو وہ ہر اعتبار سے پرفیکٹ ہی کو پسند کرے گا تو اس طرح آپ خود کشی اور غلط راستوں پر چلنے والی مجبور بہنوں کو حلال راستہ فراہم کرنے کا ثواب پاسکتی ہیں۔
🌹 اس حلال راستہ کے بند ہونے کی وجہ سے بے شمار مرد حرام اور غلط راستوں سے اپنی خواہشات پوری کرنے پر مجبور ہیں تو جب مردوں کونکاح کر کے حلا ل طریقے سے اپنی خواہش پوری کرنے پر حدیث پاک کی روسے صدقہ کا ثواب ملے گا تو اس میں پہلی بیوی جو بخوشی اجازت دیتی ہے اس کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا۔ 

⬅📢 میری نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے والدین سے پر اصرار اور درد مندانہ گزارش ہے🙏 کہ میرے اس درد بھرے خط کو اپنے بیٹے یا بیٹی کی طرف سےسمجھيے.. 
اللّه کے لیے تمام رسوم ورواج (جوخود ساختہ ہیں۔ شریعت میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ اکثررسوم ورواج تو ہندوؤں وغیرہ سے لیے گئے ہیں) ان سب سے توبہ کیجيے۔ شادی کو آسان بنا کر اس کی برکات ملاحظہ کیجيے ۔ یہ تو حضور صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے جس کا مفہوم ہے کہ با برکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچہ ہو ... چنانچہ لڑکے والے لڑکی والوں کے ليے اور لڑکی والے لڑکے والوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں تاکہ نکاح میں کم سے کم خرچہ ہو۔ اللہ پر توکل کیجيے اور دیکھيے کہ اللہ تعالیٰ کیسے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے آپ کے لیے کافی ہوجاتے ہیں۔ 
ومن یتوکل علی الله فھوحسبه 

فقط و السلام
🇵🇰آپ کی گمنام بہن🇵🇰

خوداعتمادی


__   خوداعتماد افراد کی 10 عادتیں   __               
اگر شخصیت میں اعتماد ہو تو کم تعلیم کے باوجود زندگی میں ترقی ممکن ہے جبکہ خوداعتمادی سے محرومی اعلیٰ تعلیم اور صلاحیت کو بھی ماند کردیتی ہے۔ درحقیقت حقیقی اعتماد شخصیت میں ایک جادو سا بھر دیتا ہے ۔ ایسا ہونے پر لوگوں کو خود پر اور اپنی صلاحیت پر یقین ہوتا ہے اور خوداعتمادی سے بھرپور افراد کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں کرنے سے گریز کرتے ہیں جو ڈان کے توسط سے درج ذیل ہیں۔

#جواز نہیں تراشتے
خوداعتماد لوگوں کو جس ایک چیز پر یقین ہوتا ہے وہ ذاتی تاثیر ہے، ان کا ماننا ہوتا ہے کہ وہ چیزوں کو بنا سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کبھی بھی ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے تاخیر یا ترقی نہ ملنے پر انتظامیہ کی شکایات نہیں کرتے، درحقیقت ایسے افراد کبھی بہانے یا جواز نہیں تراشتے کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔

#وہ ہمت نہیں ہارتے
خوداعتمادی کی دولت سے مالامال افراد اپنی پہلی کوشش ناکام ہونے پر ہار نہیں مانتے، وہ اس کام میں سامنے آنے والی مشکلات اور ناکامیوں کو رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں جسے عبور کرنا ہوتا ہے۔ وہ بار بار ایک چیز مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ وہ یہ جاننے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آخر ان کی ناکامی کی وجہ کیا ہے اور کس طرح اگلی بار اس سے بچا جاسکتا ہے۔

#وہ کام کرنے کے لیے اجازت ملنے کا انتظار نہیں کرتے
خوداعتماد افراد کے لیے یہ ضروری نہیں کہ کوئی انہیں بتائے کہ کیا کرنا ہے یا کیسے کرنا ہے، وہ وقت ضائع کیے اور سوالات کیے بغیر اپنے کام کو نمٹاتے ہیں، وہ بس اپنے کام کو نمٹانا چاہتے ہیں اور اسے پورا کرتے ہیں۔

#انہیں توجہ کی خواہش نہیں ہوتی
لوگ ان افراد کو زیادہ نہیں پسند کرتے جو توجہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں، خوداعتماد افراد جانتے ہیں کہ وہ اپنی حد تک کتنے موثر ہیں اور انہیں خود کو اہم ثابت کرنے میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ ایسے افراد بس اپنے اندر درست رویہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ خود کو ملنے توجہ کو بھی دیگر افراد کے کام کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

#انہیں مسلسل تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی
کیا آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو چاہتا ہے لوگ اسے مسلسل سراہے؟ خوداعتماد افراد ایسا نہیں کرتے، انہیں نہیں لگتا کہ ان کی کامیابی کا انحصار دیگر افراد کی تعریف پر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جتنا بھی اچھا کام کریں، ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسا ہوگا جو لازمی تنقید کرے گا۔

#وہ کام ٹالتے نہیں
لوگ کاموں کو ٹالتے کیوں ہیںَ کئی بار اس کی وجہ بس یہ ہوتی ہے کہ وہ سست ہوتے ہیں جبکہ متعدد بار اس کی وجہ ان کا خوفزدہ ہونا ہوتا ہے، یعنی تبدیلی، ناکامی یا ہوسکتا ہے کامیابی کا خوف۔ خوداعتماد افراد کاموں کو ٹالتے نہیں کیونکہ وہ خود پر یقین رکھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ ان کے اقدامات انہیں مقصد کے قریب لے جائیں گے۔

#دیگر افراد سے موازنہ نہیں کرتے
ایسے افراد اپنے فیصلے دوسروں کے سر تھوپتے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ خاص ہوتا ہے، اور انہیں دیگر افراد کی ہمت یا حوصلہ توڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی تاکہ خود اچھا محسوس کرسکیں۔ دیگر افراد سے موازنہ کرنا شخصیت کو محدود کرتا ہے ۔ خوداعتمادی کے نتیجے میں لوگ اپنا وقت دیگر افراد سے موازنہ میں ضائع نہیں کرتے۔

#تنازعے سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے
خوداعتماد افراد کی نظر میں تنازعہ ایسی چیز نہیں جس سے ہر قیمت پر بچا جائے، بلکہ وہ اسے ایسے دیکھتے ہیں کہ اس کو کیسے موثر طریقے سے نمٹائیں۔ ناخوشگوار بات چیت یا فیصلے کرنے سے وہ ہچکچاتے نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تنازع زندگی کا حصہ ہے۔

#وسائل کی کمی کو آڑے نہیں آنے دیتے
ایسے افراد اپنے راستے سے اس لیے پیچھے نہیں ہٹ جاتے کیونکہ ان کے پاس وسائل، عملہ یا رقم نہیں، اس کی بجائے وہ آگے بڑھنے کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بغیر ہی آگے بڑھ سکیں۔

#بہت زیادہ مطمئن نہیں ہوتے
ایسے افراد جانتے ہیں کہ بہت زیادہ اطمینان ان کے مقاصد کے حصول کے لیے خاموش قاتل ثابت ہوتا ہے۔ جب وہ اطمینان محسوس کرنے لگتے ہیں تو اسے خطرے کی جھنڈی کے طور پر لیتے ہیں اور اپنی شخصیت کی حدود کو پھیلانے لگتے ہیں، ان کے خیال میں تھوڑا سا عدم اطمینان ذاتی زندگی اور کیرئیر دونوں کے لیے اچھا ہوتا ہے۔