پچھلی قسط میں خانوادہ ابراھیم علیہ سلام کی ھجرت اور پھر ننھے اسمائیل علیہ سلام کے مبارک قدموں کے نیچے سے زم زم کے چشمے کے پھوٹ پڑنے کا ذکر کیا گیا.. یہ چشمہ دراصل مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں زندگی کی نوید تھا.. پہلے قبیلہ جرھم جو پانی کی تلاش میں عرب کے صحراؤں میں پھر رھا تھا زم زم کے چشمہ کے پاس قیام پذیر ھوا اور پھر کچھ عرصہ بعد ایک اور قبیلہ بنی قطورا بھی حضرت ھاجرہ کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..
اور یوں مکہ جس کا قدیم اور اصل نام بکہ تھا (سورہ آل عمران).. ایک باقائدہ آبادی کا روپ اختیار کرگیا..
اگلے 15 ' 20 سال میں چند اھم واقعات ظہور پذیر ھوۓ.. ان میں سے ایک تو حضرت ابراھیم علیہ سلام کا وہ خواب ھے جس میں انہیں حضرت اسمائیل علیہ سلام کی قربانی کا حکم ھوا.. یقیننا" یہ حضرت ابراھیم علیہ سلام اور حضرت اسمائیل علیہ سلام کی ایک عظیم آزمائش تھی..
حضرت ابراھیم علیہ سلام اللہ کا حکم پاکر مکہ تشریف لاۓ اور اپنے بیٹے حضرت اسمائیل علیہ سلام سے اپنے خواب کا ذکر کیا.. سعادت مند اور فرماں بردار بیٹے نے جو اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھے یہ کہہ کر اپنی رضامندی ظاھر کردی کہ اگر یہ اللہ کا حکم ھے تو پھر مجھے قبول ھے آپ حکم ربی کو پورا کریں.. اور پھر عین اس وقت جب کہ حضرت ابراھیم علیہ سلام حضرت اسمائیل علیہ سلام کی گردن پر چھری چلانے والے تھے , اللہ نے ان کو آزمائش میں کامیاب پاکر حضرت جبرائیل علیہ سلام کو ایک مینڈھے سمیت زمین پر بھیجا اور پھر حضرت اسمائیل علیہ سلام کی جگہ اس مینڈھے کی قربانی کی گئی..
اللہ کو حضرت ابراھیم علیہ سلام اور حضرت اسمائیل علیہ سلام کا یہ فعل اتنا پسند آیا کہ پھر تا قیامت اس قربانی کی یاد میں حج پر قربانی فرض کردی اور تب سے ھر سال یہ سنت ابراھیمی جاری ھے اور عید الاضحی' کے دن لاکھوں مسلمان اللہ کی راہ میں جانور قربان کرکے اس عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ھیں.. حضرت اسمائیل مکہ میں ھی فوت ھوۓ اور ایک روایت کے مطابق وہ اور ان کی والدہ حضرت ھاجرہ بیت اللہ کے ساتھ حجر (حطیم) میں مدفون ھیں.. واللہ اعلم..
دوسرا اھم واقعہ خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر تھی.. خانہ کعبہ حضرت آدم علیہ سلام نے تعمیر کیا تھا اور یہ زمین پر اللہ کا پہلا گھر تھا مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی عمارت بھی سطح زمین سے معدوم ھوگئی اور حضرت ابراھیم علیہ سلام کے زمانہ میں اس کا کوئی نشان تک ظاھر نہ تھا.. لیکن پھر اللہ کے حکم پر حضرت جبرائیل علیہ سلام نے حضرت ابراھیم علیہ سلام کی خانہ کعبہ کی بنیادوں کی طرف نشاندھی کی اور آپ نے اپنے بیٹے حضرت اسمائیل علیہ سلام کے ساتھ ملکر خانہ کعبہ کی پرانی بنیادوں پر تعمیر کی.. اللہ کا یہ گھر ایسا سادہ تعمیر ھوا کہ اس کی نہ چھت تھی , نہ کوئی کواڑ اور نہ ھی کوئی چوکھٹ یا دروازہ.. کعبہ کو "کعبہ" اس کی ساخت کے مکعب نما ھونے کی بنا پر کہا جاتا ھے.. عربی میں چھ یکساں پہلوؤں والی چیز معکب کہلاتی ھے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ سلام کی تعمیر مکعب حالت میں تھی تو اسے کعبہ کہا جانے لگا.. یاد رھے کہ موجودہ خانہ کعبہ چار کونوں والا ھے جسے قریش مکہ نے اس وقت تعمیر کیا جب ایک سیلاب میں خانہ کعبہ کی عمارت منہدم ھوگئی تھی.. اس کا ذکر آگے آۓ گا..
تیسرا اھم واقعہ قبائل جرھم اور بنی قطورا کا حضرت ابراھیم علیہ سلام کی تبلیغ پر دین حنیف یعنی دین ابراھیمی قبول کرلینا تھا.. خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراھیم علیہ سلام نے خانہ کعبہ کی تولیت یعنی سارا مذھبی انتظام قبیلہ جرھم کے حوالے کردیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی سے حضرت اسمائیل علیہ سلام کی شادی ھوئی..
جب کچھ پشتوں بعد نسل اسمائیل علیہ سلام پھلی پھولی تو پھر خانہ کعبہ کا سارا انتظام خود آل اسمائیل نے سنبھال لیا.. کچھ عرصہ گزرا تو ایک اور قبیلہ "ایاد" مکہ پر حملہ آور ھوا اور شھر پر زبردستی قبضہ کرلیا.. اور اس دوران بنی اسمائیل کے بہت سے قبائل کو مکہ سے نکلنا بھی پڑا.. تاھم بعد میں یمن سے آنے والے ایک اور قبیلہ بنو خزاعہ نے مکہ کو بنی ایاد سے آزاد کرالیا..
حضرت اسمائیل علیہ سلام کی نسل سے "قصی بن کلاب" وہ نامور بزرگ گزرے ھیں (جن کی شادی بنو خزاعہ کے رئیس کی بیٹی سے ھوئی تھی) جنہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت واپس لینے کے لیے جدو جہد شروع کی اور بالآخر بنو خزاعہ کی بہت مخالفت کے باوجود اس مقصد میں کامیاب ھوۓ.. انہوں نے خانہ کعبہ کی تولیت کا انتظام پھر سے ملنے پر قدیم عمارت گرا دی اور خانہ کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرایا اور پہلی بار کجھور کے پتوں کی چھت بھی ڈالی..
درحقیقت قصی بن کلاب ھی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مکہ کو ایک خانہ بدوشانہ شھر سے بدل کر ایک منظم ریاست کی شکل دی.. انہیں بجا طور پر مکہ کا مطلق العنان بادشاہ کہا جاسکتا ھے جن کا ھر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا تھا.. تاھم انہوں نے دیگر قبائل کے سرکردہ افراد کو اپنی مشا
ورت میں شامل رکھا جبکہ مکہ کا انتظام و انتصرام چلانے کے لیے مختلف انتظامی امور کو چھ شعبوں میں تقسیم کیا اور اپنی اولاد میں ان عہدوں کی تقسیم کی.. یہ نظام بڑی کامیابی سے اگلے 150 سال سے زائد عرصہ تک چلا اور پھر بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جب مکہ فتح ھوا تو اسے اسلامی اصولوں اور بنیادوں پر تبدیل کردیا گیا..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری
ھے..
No comments:
Post a Comment