या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

Friday, September 21, 2018

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 2

سیرت النبیﷺ ..قسط 2

مؤرخین عرب قوم کو تین گروھوں میں تقسیم کرتے ھیں..

عرب بائدہ..

یہ قدیم عرب لوگ ھیں جو اس ملک میں آباد تھے.. ان میں قوم عاد و ثمود کا نام آپ میں سے اکثر نے سن رکھا ھوگا.. ان کے علاوہ عمالقہ ' طسم ' جدیس ' امیم وغیرہ بھی اھم ھیں.. ان لوگوں نے عراق سے لیکر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں.. بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے..

یہ قومیں کیسے صفحہ ھستی سے مٹ گئیں اس کے متعلق تاریخ ھمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ھے.. لیکن اب بابل ' مصر ' یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ھورھے ھیں اور کتابیں لکھی جارھی ھیں.. جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ھمیں بتاتا ھے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو انکو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ھوگئیں..

عرب عاربہ..

عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ھے.. یہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ھیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباھی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ھوۓ..

قحطان حضرت نوح علیہ السلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلاۓ.. پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پذیر ھوۓ.. مشھور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا.. پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی.. اسکی ایک وجہ تووہ مشھور سیلاب ھے جو "مارب بند " ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا جسکے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا.. اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ھے..

اور دوسری وجہ یہ کہ جب انکی آبادی پھیلی تو مجبورا" ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے.. جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وھاں اپنی آبادیاں قائم کیں.. جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھم مکہ کی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی زوجہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..

بنو قحطان کا ھی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھ یثرب (مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنی اسرائیل کے رھتے تھے انہیں مغلوب کرلیا.. قلعے بناۓ اور نخلستان لگاۓ.. اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشھور قبیلے تھے جنکا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ھے..

عرب مستعربہ..

سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ھونے والے بنو اسمائیل تھے.. انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ھے.. حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ھاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسمائیل علیہ السلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا.. اور خود واپس چلے گئے..

یاد رھے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ ھی خانہ کعبہ کا وجود.. خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت تعمیر ھوا مگر خانوادہ ابراھیم علیہ السلام کی ھجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ھوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسمائیل علیہ السلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراھیم علیہ السلام مکہ تشریف لاۓ تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی راھنمائی اور نگرانی میں خانہ کعبہ کو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرت آدم علیہ السلام نے بنایا تھا..

جب شدت گرمی اور پیاس سے حضرت اسمائیل علیہ السلام کی حالت خراب ھونا شروع ھوئی تو حضرت ھاجرہ.. ایک عظیم ماں کی وہ بے قرار دوڑ شروع ھوئی جو آج بھی حج کا ایک لازم حصہ ھے..

آپ پانی کی تلاش میں کبھی صفا پہاڑی پر چڑھ کر دور دور تک دیکھتیں کہ شائد کہیں پانی نظر آۓ اور کبھی صفا کی مخالف سمت میں مروہ پہاڑی پر چڑھ کر دیکھتیں مگر وھاں پانی ھوتا تو نظر آتا.. اس دوران جب حضرت اسمائیل علیہ السلام کے رونے کی آواز ماں کے کانوں میں پڑتی تو بے قرار ھوکر ان کے پاس دوڑی دوڑی جاتیں اور جب انکو پیاس سے جاں بلب اور روتا بلکتا دیکھتیں تو پھر دیوانہ وار پانی کی تلاش میں جاتیں..

اسی اثناء میں کیا دیکھتی ھیں کہ جہاں ننھے اسمائیل علیہ السلام اپنی ایڑھیاں رگڑ رھے تھے وھاں سے پانی کسی چشمہ کی صورت ابل رھا ھے.. بھاگ کر بیٹے کے پاس پہنچیں.. اللہ کا شکر ادا کرتے ھوۓ بیٹے کو پانی پلایا.. خود بھی پیا اور پھر اس چشمہ کے ارد گرد تالاب کی صورت میں مٹی کی منڈیر بنادی لیکن جب پانی مسلسل بڑھتے بڑھتے تالاب کے کناروں سے باھر نکلنے لگا تو بے اختیا ر آپ کے مونھ سے نکلا..

" زم زم " (ٹھہر جا ٹھہر جا)

اور انکے یہ فرماتے ھی پانی یکدم ٹھہر گیا..

یہاں آپ سے زم زم کے کنویں کے متعلق ایک معجزاتی بات شیئر کرنا چاھتا ھوں.. موجودہ دور میں اس کنوں میں بڑی بڑی موٹریں لگا کر پانی نک

الا جاتا ھے.. کنویں میں پانی کا لیول خانہ کعبہ کی بنیادوں سے ھمیشہ 6 فٹ نیچے رھتا ھے.. کنویں سے 24 گھنٹے لگاتار پانی نکالا جاتا ھے جسکی مقدار ملیئنز آف ملیئنز گیلنز میں ھوتی ھے..

اب دو بہت ھی عجیب باتیں ظہور پذیر ھوتی ھیں.. ایک تو یہ کہ 24 گھنٹے میں مسلسل پانی نکالنے کی وجہ سے کنویں کا جو لیول کم ھوتا ھے وہ بہت تیزی سے محض گیارہ منٹوں میں اپنی اصل جگہ پر واپس آجاتا ھے.. اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ھے کہ اتنی تیزی سے اوپر چڑھنے والا پانی ھمیشہ ھی اپنے لیول یعنی خانہ کعبہ کی بنیادوں سے 6 فٹ نیچے پہنچ کر خود بخود رک جاتا ھے..

یہ اوپر کیوں نہیں چڑھتا..؟

اور اگر یہ پانی خود بخود نہ رک جاۓ تو تب غور کریں کہ اگر 24 گھنٹے نکالا جانے والا پانی صرف 11 منٹوں میں پورا ھوجاتا ھے تو اگر یہ پانی نہ رکے اور اوپر چڑھ کر باھر بہنا شروع کردے تو تب کیا صورت پیدا ھوگی..؟

یقینا" یہ حضرت ھاجرہ کے مبارک فرمان یعنی "زم زم.. ٹھہرجا ٹھہرجا" کی برکت ھے کہ یہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا اور جتنا بھی اس سے پانی نکال لیا جاۓ یہ بس اپنے اسی لیول تک آ کر خود بخود رک جاتا ھے جہاں کبھی اسے حضرت ھاجرہ نے روکا تھا.. اب اصل موضوع کی طرف پلٹتے ھیں..

اوپر بنو قحطان کے ایک قبیلہ جرھم کا ذکر کیا گیا.. سرزمین عرب کیونکہ زیادہ تر صحرا اور لق و دق پہاڑی علاقہ پر مشتمل ھے اور پانی بہت نایاب ھے تو کسی جگہ آبادی کے لیے بہت ضروری ھے کہ وھاں پانی میسر ھو.. قبیلہ جرھم جب اپنے علاقہ یمن سے نئے وطن کی تلاش میں نکلا تو دوران سفر جب مکہ کی وادی میں پہنچا تو وھاں انکو زم زم کے چشمہ کی وجہ سے ٹھہرنا مناسب لگا.. کیونکہ چشمہ کی مالک حضرت ھاجرہ تھیں تو انہوں نے بی بی ھاجرہ کی اجازت سے چشمہ کے ساتھ میں ڈیرے ڈال دیئے اور آباد ھوگئے.. یوں حضرت ھاجرہ اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کو ایک مضبوط عربی قبیلہ کا ساتھ میسر آیا.. بعد ازاں اسی قبیلہ کے سردار کی بیٹی کے ساتھ حضرت اسمائیل علیہ السلام کی شادی ھوئی جبکہ خانہ کعبہ بھی ازسر نو تعمیر ھوا..

یوں مکہ بے آب وگیاہ وادی سے ایک آباد شھر کا روپ اختیار کر گیا..

-->جاری ھے.

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی.
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری.



No comments:

Post a Comment