📒کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا..؟ کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا..؟ اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے.. اس طرح اللہ نے ان کو کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کردیا..
سورہ الفیل.. آیت 1 تا 5..
واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمد مصطفی' صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران "ابرہہ بن اشرم" 60 ہزار فوج اور 13 ہاتھی لیکر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا..
ابرہہ بن اشرم آغاز میں اس عیسائی فوج کا ایک سردار تھا جو شاہ حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا "یوسف ذونواس" کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی.. ابرہہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوۓ بالآخر یمن کا خود مختار بادشاہ بن بیٹھا لیکن کمال چالاکی سے اس نے براۓ نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کئے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رہا..
ابرہہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا.. اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا..
اس مقصد کے اس نے یمن کے دارالحکومت "صنعاء" میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا جسے عرب مؤرخین "القلیس" اور یونانی "ایکلیسیا" کہتے ہیں.. اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے.. ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی , وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ہاتھ آجاتی..
ابرہہ نے پہلے شاہ جبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھر یمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ " میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رہونگا.."
اس کے اس اعلان پر غضب ناک ہو کر ایک عرب (حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرہہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کرڈالی.. اپنے کلیسا کی اس توہین پر ابرہہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں..
اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ہزار فوج اور 13 جسیم ہاتھی لیکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے نکلا.. راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست کھائی اور ابرہہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام "المغمس" میں پہنچ گیا..
یہاں ابرہہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا.. جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لئے گئے جن میں مکہ کے سردار اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے دو سو اونٹ بھی تھے.. اس کے بعد ابرہہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اہل مکہ کو پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر (کعبہ) کو گرانے آیا ہوں.. اگر تم نہ لڑو تو میں تمھاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا..
حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا.. "ہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے.. کعبہ اللہ کا گھر ہے وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا.."
ایلچی نے کہا.. "آپ میرے ساتھ ابرہہ کے پاس چلیں.." وہ اس پر راضی ہوگئے..
حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے.. ابرہہ ان کی مردانہ وجاہت سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا.. پھر آپ سے پوچھا.. "آپ کیا چاہتے ہیں..؟"
انہوں نے کہا.. "میرے جو اونٹ پکڑ لئے گئے ہیں میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاہتا ہوں.."
ابرہہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ہوا اور کہا.. "آپ مجھ سے اپنے دو سو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کررہے ہیں مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ہے.. میں اسے گرانے آیا ہوں مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں.."
یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا.. "ان اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لئے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کررہا ہوں.. رہا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ہے وہ اس کی حفاظت خود کرے گا.."
ابرہہ نے متکبرانہ انداز میں کہا.. "کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا.."
حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا.. "یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ.. لیکن یہ اس کا گھر ہے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا.. " یہ کہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرہہ سے واپس لئے گئے اونٹ لیکر مکہ آگئے..
🌹🌹
==========>جاری ہے..
سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی..
سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
ال
No comments:
Post a Comment