या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

Friday, September 21, 2018

سیرت النبیﷺ قسط نمبر 7

سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.. قسط نمبر 7..

قریش اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے لہذا حضرت عبدالمطلب نے انہیں کہا کہ سب اپنے بال بچوں اور مال مویشی لیکر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ھو..

پھر وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرماۓ.. مؤرخین نے حضرت عبدالمطلب کے جو دعائیہ اشعار نقل کیے وہ یہ ھیں..

"الہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ھے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما.. کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آنے پاۓ.. صلیب کی آل کے مقابلے پر آج اپنی آل کی مدد فرما..

اے میرے رب ! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا.. اے میرے رب ! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما.."

یہ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب بھی سرداران قریش کے ساتھ باقی اھل مکہ کے پاس پہاڑوں میں چلے گئے..

دوسرے روز ابرھہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ھونے کے لیے آگے بڑھا مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ھاتھی "محمود" مکہ کی طرف چلنے کی بجاۓ یکایک وھیں بیٹھ گیا اور بےپناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ھلا مگر جب اس کا مونھ شام کی طرف کیا گیا تو اٹھ کر چلنے لگا اور یمن کی طرف رخ ھوا تو ادھر بھی دوڑنے لگا مگر مکہ کی طرف اسے چلانے کی کوشش کی جاتی تو ایک انچ ادھر نہ بڑھتا.. نتیجتہ" باقی ھاتھیوں سمیت سارا لشکر بھی اپنی جگہ انتظار میں رکا ھوا تھا..

ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ھوگئے.. ھر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ھوۓ تھے.. ابرھہ اور اس کے لشکر کے وھم و گمان میں بھی نہ ھوگا کہ ان کے ساتھ کیا ھونے والا ھے.. ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردیے..

وہ سنگ ریزے , سنگ ریزے کہاں تھے.. وہ تو اللہ کا عذاب تھے.. جس پر جہاں گرتے , بجاۓ صرف زخمی کرنے کے کسی چھوٹے بم کی سی تباھی مچا دیتے.. اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی جرآت کرنے والوں کے لیے کہیں کوئی جاۓ پناہ نہ تھی..

تھوڑی ھی دیر میں ابرھہ اپنے 60 ھزار کے لشکر اور 13 ھاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ھوا بھوسہ ھو.. ھر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں..

یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منی' کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا.. جس سال یہ واقعہ پیش آیا اھل عرب اسے عام الفیل کہتے ھیں جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت مبارک ھوئی..

===========>جاری ھے..

سیرت النبی.. مولانا شبلی نعمانی..
تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)..
سیرت ابن ھشام..

No comments:

Post a Comment