*سیرت النبیﷺ ۔۔۔ قسط 20..*
*حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کی شادی..*
==============================
حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب 545ء میں پیدا ھوئے.. آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا.. آپ دینِ حنیف (دینِ ابراھیمی) پر قائم تھے اور ان کی بت پرستی اور کسی اخلاقی برائی (جو ان دنوں عرب میں عام تھیں) کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی.. حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے پیدا ھوۓ اور سب کے سب نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے.. اس واقعہ کی تفصیل بھی پچھلی اقساط میں گزر چکی ھے لہذہ اس سے آگے کے واقعات کی طرف چلتے ھیں..
حضرت عبداللہ جب قربانی سے بچ نکلے تو حضرت عبدالمطلب نے ان کی شادی کا سوچا.. حضرت عبداللہ اپنے والد اور دادا کی طرح نہائت ھی حسین وجمیل اور وجیہہ انسان تھے.. مکہ کی کئی شریف زادیاں ان سے شادی کی خواھش مند تھیں مگر پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ محترمہ بننے کی سعادت حضرت آمنہ بنت وھب کی قسمت میں لکھی تھی..
ان شریف زادیوں کی اس خواھش کے پیچھے صرف حضرت عبداللہ کی ظاھری شخصیت ھی وجہ نہ تھی بلکہ اس کی اصل وجہ وہ نور نبوت تھا جو ان کی پیشانی میں چاند کی طرح چمکتا تھا.. ان عورتوں میں ایک عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی چچا کی بیٹی اور مشہور "ورقہ بن نوفل" کی بہن "ام قتال" تھیں.. ان کے بھائی ورقہ بن نوفل انجیل و سابقہ صحائف آسمانی کے علوم کے ماھر تھے اور ان کی وجہ سے ام قتال جانتی تھیں کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں چمکنے والا نور , نور نبوت ھے اور اسی لیے ان کی خواھش تھی کہ یہ نور ان کے بطن سے جنم لے..
دوسری عورت ایک کاھنہ "فاطمہ بنت مرالخثعمیہ" تھیں جنہوں نے اپنی روحانی استعداد سے جان لیا تھا کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جو نور دمکتا ھے وہ نور نبوت ھے اس لیے یہ بھی حضرت عبداللہ سے شادی کی خواھشمند تھیں تاھم حضرت عبدالمطلب کی نظر انتخاب حضرت آمنہ پر جاکر رکی جو قبیلہ زھرہ کے سردار "وھب بن عبد مناف بن زھرہ بن کلاب" کی بیٹی تھیں اور قریش کے تمام خاندانوں میں اپنی پاکیزگی اور نیک فطرت کے لحاظ سے ممتاز تھیں.. اس وقت وہ اپنے چچا "وھیب بن عبدمناف بن زھرہ" کے پاس مقیم تھیں..
حضرت عبدالمطلب وھیب کے پاس گئے اور حضرت عبداللہ کے لیے حضرت آمنہ کا رشتہ مانگا جسے قبول کرلیا گیا اور یوں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رشتہ ازدواج میں منسلک ھوگئے.. اس موقع پر خود حضرت عبدالمطلب نے بھی ایک کاھن کی کہنے پر وھیب بن عبدمناف کی بیٹی "ھالہ" سے شادی کرلی جن سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے جری شیر پیدا ھوۓ.. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ھونے کے ساتھ ساتھ ماں کے رشتے سے خالہ زاد بھائی بھی تھے کیونکہ جناب ھالہ اور حضرت آمنہ آپس میں چچازاد بہنیں بھی تھیں..
دوسری طرف جب اس شادی کا علم ام قتال اور فاطمہ بنت مرالخثعمیہ کو ھوا تو وہ بےحد رنجیدہ ھوئیں اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں ناکامی پر رو پڑیں..
ان کا رونا واقعی میں حق بجانب تھا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ھونے کا اعزاز ساری دنیا کی قیمت سے بڑھ کر تھا اور یہ اعزاز اللہ نے حضرت آمنہ کے نصیب میں لکھ دیا تھا..
===========>جاری ھے..
*حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کی شادی..*
==============================
حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب 545ء میں پیدا ھوئے.. آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا.. آپ دینِ حنیف (دینِ ابراھیمی) پر قائم تھے اور ان کی بت پرستی اور کسی اخلاقی برائی (جو ان دنوں عرب میں عام تھیں) کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی.. حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے پیدا ھوۓ اور سب کے سب نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے.. اس واقعہ کی تفصیل بھی پچھلی اقساط میں گزر چکی ھے لہذہ اس سے آگے کے واقعات کی طرف چلتے ھیں..
حضرت عبداللہ جب قربانی سے بچ نکلے تو حضرت عبدالمطلب نے ان کی شادی کا سوچا.. حضرت عبداللہ اپنے والد اور دادا کی طرح نہائت ھی حسین وجمیل اور وجیہہ انسان تھے.. مکہ کی کئی شریف زادیاں ان سے شادی کی خواھش مند تھیں مگر پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ محترمہ بننے کی سعادت حضرت آمنہ بنت وھب کی قسمت میں لکھی تھی..
ان شریف زادیوں کی اس خواھش کے پیچھے صرف حضرت عبداللہ کی ظاھری شخصیت ھی وجہ نہ تھی بلکہ اس کی اصل وجہ وہ نور نبوت تھا جو ان کی پیشانی میں چاند کی طرح چمکتا تھا.. ان عورتوں میں ایک عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی چچا کی بیٹی اور مشہور "ورقہ بن نوفل" کی بہن "ام قتال" تھیں.. ان کے بھائی ورقہ بن نوفل انجیل و سابقہ صحائف آسمانی کے علوم کے ماھر تھے اور ان کی وجہ سے ام قتال جانتی تھیں کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں چمکنے والا نور , نور نبوت ھے اور اسی لیے ان کی خواھش تھی کہ یہ نور ان کے بطن سے جنم لے..
دوسری عورت ایک کاھنہ "فاطمہ بنت مرالخثعمیہ" تھیں جنہوں نے اپنی روحانی استعداد سے جان لیا تھا کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جو نور دمکتا ھے وہ نور نبوت ھے اس لیے یہ بھی حضرت عبداللہ سے شادی کی خواھشمند تھیں تاھم حضرت عبدالمطلب کی نظر انتخاب حضرت آمنہ پر جاکر رکی جو قبیلہ زھرہ کے سردار "وھب بن عبد مناف بن زھرہ بن کلاب" کی بیٹی تھیں اور قریش کے تمام خاندانوں میں اپنی پاکیزگی اور نیک فطرت کے لحاظ سے ممتاز تھیں.. اس وقت وہ اپنے چچا "وھیب بن عبدمناف بن زھرہ" کے پاس مقیم تھیں..
حضرت عبدالمطلب وھیب کے پاس گئے اور حضرت عبداللہ کے لیے حضرت آمنہ کا رشتہ مانگا جسے قبول کرلیا گیا اور یوں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رشتہ ازدواج میں منسلک ھوگئے.. اس موقع پر خود حضرت عبدالمطلب نے بھی ایک کاھن کی کہنے پر وھیب بن عبدمناف کی بیٹی "ھالہ" سے شادی کرلی جن سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسے جری شیر پیدا ھوۓ.. حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ھونے کے ساتھ ساتھ ماں کے رشتے سے خالہ زاد بھائی بھی تھے کیونکہ جناب ھالہ اور حضرت آمنہ آپس میں چچازاد بہنیں بھی تھیں..
دوسری طرف جب اس شادی کا علم ام قتال اور فاطمہ بنت مرالخثعمیہ کو ھوا تو وہ بےحد رنجیدہ ھوئیں اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں ناکامی پر رو پڑیں..
ان کا رونا واقعی میں حق بجانب تھا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ھونے کا اعزاز ساری دنیا کی قیمت سے بڑھ کر تھا اور یہ اعزاز اللہ نے حضرت آمنہ کے نصیب میں لکھ دیا تھا..
===========>جاری ھے..
No comments:
Post a Comment