या ब्लॉगचा उद्देश एकाच ठिकाणी सर्व प्रकारच्या उपयुक्त आणि महत्वपूर्ण माहिती प्रदान करणे आहे.या ब्लॉगची सामग्री सोशल मीडियामधून घेतली आहे.

Sunday, October 15, 2017

کوثر کی شان

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بڑے صاحبزادے حضرت قاسمؓ کی وفات کے بعد جب انکے چھوٹے صاحبزادے حضرت عبداللؓہ کا بھی انتقال ہو گیا تو عرب کے کفار بہت خوش ہوئے۔ خونی رشتوں کی عرب میں بہت اہمیت تھی.

 آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا چچا ابولہب تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا۔ جب یہ تکلیف آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر آئی تو اسکی تو جیسے عید ہو گئی، صبح ہوئی تو وہ دوڑا دوڑا گیا اور گھر گھر یہ خبر پہنچانے لگا کہ...

" ابتر محمد اللیلتہ "

" آج رات محمد کی جڑ کٹ گئی۔ اور وہ لا ولد (بے نسل) ہوگئے ... " (معاذاللہ )

اس کے بعد مکہ کے ایک سردار عاص بن وائل نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے ابتر کا لفظ خاص کر دیا۔ جب بھی کوئی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتا تو وہ فوراً منہ بنا کر کہتا کہ...." ان کی کیا بات کرتے ہو ...؟ "
" وہ تو ابتر (جڑ کٹے) آدمی ہیں (معاذاللہ) "

اس نے اس ابتر والی بات کو خوب پھیلایا ، یہ بات دو دھاری تلوار کی طرح تھی، اس سے انکا ایک مقصد تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صاحبزادوں کے انتقال کا غم ستاتا رہے اور دوسرا مقصد یہ کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم سے کٹ کر اس درخت کی مانند ہو گئے ہیں جس کی جڑیں کٹ گئی ہوں اور اب وہ گرنے ہی والا ہو۔ ( معاذاللہ )

عاص بن وائل طنزاً لوگوں سے کہتا کہ " یہ بے نسل رہ گئے، انکا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا، انکی وفات کے بعد انکا نام بھی مٹ جائے گا اور تمہاری جان ان سے چھوٹ جائے گی۔ اپنی قوم سے تو یہ تب سے ہی لاتعلق ہو گئے تھے جب انہوں نے انکے شرک کو اعلانیہ برا بھلا کہا تھا، تجارت انکی تباہ ہو گئی اور بیٹے انکے نہ رہے، اب تو یہ بے نسل رہ گئے ہیں. (معاذاللہ) "

یہ تھے وہ انتہائی دل شکن حالات جن میں سورۃ الکوثر نازل کی گئی

قریش اس لئے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بگڑے تھے کہ آپ ﷺ صرف ایک اللہ کی بندگی و عبادت کرتے تھے اور کفار کے شرک کی مخالفت کرتے تھے۔ اسی وجہ سے پوری قوم میں آپ ﷺ کو جو مرتبہ نبوت سے پہلے حاصل تھا وہ چھین لیا گیا۔ برادری آپ ﷺ کی مخالف ہوگئی۔ آپ ﷺ کے چند مٹھی بھر ساتھی بے یار و مددگار اور ظلم و ستم کا شکار تھے۔ اس پر مزید ایک بیٹے کی وفات سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اس موقع پر عزیزوں، رشتہ داروں، قبیلے اور ہمسائیوں کی طرف سے ہمدردی و تعزیت کی بجائے وہ خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور وہ باتیں بنائی جا رہی تھیں جو ایک شریف دل انسان کے لئے دل توڑ دینے والی تھیں۔ جس انسان نے اپنے تو اپنے، غیروں سے بھی ہمیشہ نیک سلوک کیا تھا.

اس موقع پر اللہ تعالٰی نے لفظ ابتر کے مقابلے میں سورۃ کوثر کو نازل فرمایا، مختصر سے فقرے میں آپ ﷺ کو وہ خوشخبری دی گئی جو پہلے کبھی کسی کو نہ دی گئی تھی۔ اور ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی سنا دیا گیا کہ آپ ﷺ کے مخالفوں کی ہی جڑ کٹ جائے گی اور یہی ابتر اور بے نام و نشان رہ جائیں گے.

" اے نبی ! ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دیا۔ پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ بے شک تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے. "

(القرآن۔ سورۃ الکوثر)

جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مخالفین کے سامنے پڑھی گئی تو وہ اس کے ادبی حسن سے مبہوت رہ گئے۔ لیکن انہیں لفظ کوثر کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ چنانچہ وہ لفظ ابتر کو بھول گئے اور لفظ کوثر کے پیچھے پڑ گئے کہ آخر اسکا کیا مطلب ہے ....؟

لوگ ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ یہ کوثر کیا ہے ...؟

 لوگ ماہرین کلام کے آگے پیچھے پھرنے لگے۔ ہر بازار، ہر گلی، ہر کوچہ، ہر محفل میں بس ایک ہی لفظ کی تکرار رہ گئی، لفظ ابتر کے مقابلے میں لفظ کوثر کا صوتی حسن بہت زیادہ ہے۔ حتیٰ کے لوگوں نے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں سے رجوع کیا اور لفظ کوثر کا مطلب پوچھا۔ اس طرح لفظ کوثر نے مخالفین کے پروپیگنڈے کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے۔

وہ مخالفین جو ابتر ابتر کہتے پھرتے تھے ان پر ایک زبردست ضرب لگائی گئی کہ تم مخالف ہی جڑ کٹے ہو۔ اللہ نے تو اپنے نبی کو کوثر عطا کیا ہے اور بتا دیا کہ " اے نبی! تمہارے دشمن سمجھتے ہیں کہ تم برباد ہوگئے، مال و اولاد اور تعلقات سب لٹ گیا، نہیں، اللہ نے تو تمہیں بے انتہا خیر اور بے شمار نعمتیں دی ہیں، بیٹے نہ رہے تو کیا ہوا، اللہ نے ایک بیٹی سے تمہاری نسل چلا دی، ایک بلند پایہ امت کا نبی بنا دیا، اعلٰی اخلاق کی بے نظیر خوبیاں دی گئیں۔ پھر نبوت، قرآن اور علم و حکمت کی عظیم تر نعمتیں دی گئیں۔ اسکے بعد توحید پر مبنی ایک ایسے نظام زندگی کی نعمت دی جو کہ آگے سے آگے پھیلنے کی طاقت رکھتی ہے اور اسکے بعد آخرت میں حوض کوثر کی وہ نعمت دی جو کسی دوسرے انسان کو نہ دی گئی "

 یہی وہ نعمت ہے کہ 1400 سال بعد بھی آپ ﷺ کا نام ویسے کا ویسا ہی بلند ہے اور بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ ﷺ کے نام اور آپ کے پیروکار نہ مٹا سکا، یہی وہ خیر کثیر ہے کہ آپ ﷺ کی امت دنیا میں دین حق کی علمبردار بن گئی، جس سے زیادہ پاکیزہ، نیک اور بلند پایہ انسان دوسری کسی امت میں پیدا نہ ہوئے، اور یہی وہ امت ہے جو بگاڑ کی حالت کو پہنچ کر بھی سب سے زیادہ خیر کا عنصر اپنے اندر لیے ہوئے ہے

سلام ہو ایسے نبی ﷺ پر اور سلام ہو اس کلام کی طاقت پر ...!


No comments:

Post a Comment